تحریکِ انصاف کے لانگ مارچ میںجس دن سے افسوسناک واقعہ ہوا ہے، اس دن سے لے کر آج تک بس 44

اہم امور پر قومی مشاورت کی ضرورت !

اہم امور پر قومی مشاورت کی ضرورت !

ملک بھر میںنئے سپہ سالار کی تقرری پر سیاسی بھونچال آیا ہوا ہے ،سیاسی ہلچل کا سبب ایک ایساعہدہ بنا ہوا ہے کہ جس کا سیاست سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے،ہماری سیاسی قیادت کا فوج کی سیاست میں مداخلت پر اعتراض رہا ہے ،اب جب کہ فوج آفیشلی طور پر خود کو سیاست سے الگ کرنے کا واضح اعلان کرچکی ہے تو پھر اسے سیاست میںگھسٹنے کا کیا مطلب ہے ،ایک معمول کی تعیناتی اور ادارہ جاتی کاروائی کو سیاست کا موضوع بنا کرمتنازع بنانے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ،فوج سب کا پوری قوم کامشترکہ اثاثہ ہے ، اس اثاثے کو متنازع بناکر کس کی خدمت کی جارہی ہے ۔
ساری دنیا میں فوجی سربراہان کی تقرری اورریٹائرمنٹ ایک معمول کا عمل ہوتا ہے، مغربی ممالک میں توبیشترلوگوں کواپنے فوجی سربراہان کے ناموں کا بھی علم نہیں ہوتا،لیکن ہماری سیاست میںفوجی سر براہان کے نام زیر بحث لائے جارہے ہیں،آرمی چیف کے جانے نہ جانے کیساتھ نئے آرمی چیف کی تقرری پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، اس میںکو ئی ایک نہیں،ساری سیاسی قیادت ہی ملوث ہے،

جو کہ اپنے سیاسی مفاد میں انتہائی احساس معاملات بھی زیر بحث لا رہے ہیں، حکومت کی جانب سے نئے فوجی سر براہ کی تقرری کے فیصلے کو حتمی صورت ملنے کے ساتھ اُمید کی جارہی تھی کہ ملک بھر میں اُٹھنے والا سیاسی طوفان تھم جائے گا ،لیکن پی ٹی آئی قیادت نے چھبیس نومبرکو لانگ مارچ کے ساتھ راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کرکے نئے سوالات کھڑے کردیئے ہیں۔تحریک انصاف لانگ مارچ کی اہم تعیناتی کے دنوں میں سر گرمی حیران کن ہے ،اس دوران جب پاک فوج کے سر براہ کی تقرری کا عمل آخری مرحلے میں ہو گا

،پی ٹی آئی کی جانب سے راولپنڈی میں لانگ مارچ کی سر گرمی جہاں ریاست کے مابین بے پناہ دوریوں کا سبب بن سکتی ہے ،وہیں عوامی سطح پر بھی غیر معمولی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ،سیاسی قیادت اچھی طرح جانتے ہیں کہ پا کستانی عوام اپنی افواج کیلئے بے پناہ اپنائیت کا جزبہ رکھتے ہیں ،اس لیے افواج کے سر براہ کی تعیناتی کے دنوں میں راولپنڈی میں لانگ مارچ کو ایک ایسی حرکت کے طور پر لیا جاسکتا ہے

کہ جس کی وضاحت ممکن نظر نہیں آرہی ہے ،اس لانگ مارچ کے دوران فوج اور عوام کا آمنا سامنا ہو سکتا ہے ،اس مقام پر فوج بھی فائز ہے، جہاں احتجاج کرتے ہوئے عوام کی بڑی تعداد نے آنا ہے ،تاہم عوام فوج سے دست گریباں ہوں گے نہ فوج کبھی عوام پر گولی چلائیں گے ،لیکن حالات انتہائی خراب ہو سکتے ہیں ،اس کا فائدہ ملک دشمن ہی اُ ٹھا ئیں گے۔ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ،سیاسی قیادت ہوش کے ناخن لے اور افہام تفہیم کو فروغ دے ،سیاسی جماعتوں کاکام ملک میں یکجہتی اور ہم آہنگی کا فروغ ہے ،انتشار کو ہوا دینا سیاسی فلظیوں کے ناختم ہونے والے سلسلے کا سبب بنتا ہے ،

اس لیے کوئی نہیں چاہئے گا کہ سیاسی جماعتیں ایسے راستے پر چلیں اور ملک و قوم کیلئے کوئی مفید خدمت سر انجام دینے کے بجائے انتشار اور بد امنی کا محرک ثا بت ہوں ،گزشتہ دنوں صدر مملکت کی مختلف ملاقاتوں سے اُمید پیدا ہوئی تھی کہ سیاسی بے چینی اپنے انجام کو پہنچے گی ،لیکن لانگ مارچ کے روالپنڈی جانے کے اعلان سے ساری اُمیدوں پر اوس پڑ گئی ہے ،تاہم ابھی لانگ مارچ کے راولپندی جانے میں کچھ روز ہیں ،اگر اس وقت کو سوچ بچار کیلئے استعمال کرتے ہوئے معاملات سلجھا لیے جائیں

تو ایک بڑے انتشار سے بچا جاسکتا ہے ۔اس وقت درپیش صورتحال سے کشیدگی و انتشار کے جتنے سر چشمے پھوٹ رہے ہیں، ان کا تعلق انتخابی عمل کے التوا سے ہے،آرمی چیف کی تعیناتی معمول کا عمل ہے،آرمی چیف کو وزیر اعظم مقرر ضرور کرتا ہے، لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ ہر چیف آئین اور اپنے ادارے سے وفادار ہوتا ہے،آرمی چیف کا منصب کسی سیاسی صف بندی کا حصہ ہوتا نہ ہی سمجھا
چاہئے ،جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ کا معاملہ کس طرح طے ہوگا اور ریٹائرمنٹ کی صورت میں ان کا جانشین کون ہوتا ہے، اس سے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ اٹھانے کا خیال لانا چاہئے نہ ہی متنازع بنانا چاہئے ،تاہم اگر سیاسی کشیدگی کی فضا میں اہم رہنما پس پردہ بھی ایک دوسرے سے مشاورت کر رہے ہیں

تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ،اس مشاورت میں ہو سکتا ہے کہ جو بات چیت کا سلسلہ بالواسطہ شروع ہوا ہے، یہ وسعت اختیار کر لے اور پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتیں ایک ایسے ایجنڈے پر متفق ہو جائیں،جو کہ ملک میںسیاسی و معاشی استحکام پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوجائے،یہ بظاہر مشکل ضرور ،مگر قومی مفاد میں نامکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں