36

تم بدلوگے توحالات بدلیں گے !

تم بدلوگے توحالات بدلیں گے !

ملک میںفوج کا اصل آئینی کردار سرحدوں کی حفاظت ہے اور وہ اپنا فرض پوری مستعدی سے انجام دے رہے ہیں،تاہم ماضی میں بعض طابع آزمائوں نے اقتدار کے لئے فوج کے ادارے کا غلط استعمال کیا ہے ، اس میں انہیں جمہوری سوچ سے عاری کچھ جاہ پرست سیاستدانوں کی اشیر باد بھی حاصل رہی ہے

،لیکن اب کہا جارہا ہے کہ آئندہ فوج کسی بھی سیاسی تنازع میں پڑنے کے بجائے صرف اور صرف اپنے پروفیشنل کاموں تک محدود رہے گی ،ایسا ہی ہونا چاہیے،یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا،اس فیصلے میں بہت دیر کردی گئی ہے ،لیکن اگر اتنی خرابی کے بعد بھی اس فیصلے پر عمل ہو جائے تو یہ ملک وقوم مفاد میںبہتر ہی ہو گا۔سیاست میں عدم مداخلت کے حوالے سے گزشتہ روز آرمی چیف نے اپنے الوداعی خطاب میںایک بار پھر واضح کیا ہے کہ پاک فوج نے سیاسی مداخلت سے خود کو الگ کرلیا ہے

،اس پر فوجی قیادت سختی سے کار بند ہے اور آئندہ بھی رہے گی ،تاہم اس آئینی عمل کا خیر مقدم کرنے کے بجائے کئی حلقوں کی جانب سے بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے ،سیاسی قیادت سمیت دیگر حلقوں کو چاہئے تھا کہ اس اہم تبدیلی کی بھر پور پذیرائی کرتے اور یقینی بھی بناتے کہ اس سے بھر پورفائدہ اُٹھا نے کی کوشش کی جائے ،مگر اس تبدیلی پر یقین ہی نہیں کیا جارہا ہے ،سیاسی قیادت کو اپنے ریوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی ،ہم تاریخ بدل نہیں سکتے ،لیکن اس سے سیکھ تو سکتے ہیں

،اس وقت سیاسی قیادت کو تاریخ سے سیکھنے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔سیاسی قیادت اپنی غلطیوں پر نادم ہونے اور تاریخ سے سبق سیکھنے کیلئے بالکل تیار نہیں ہیں ،اس لیے بار بار پرانی ہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،ایک طرف فوجی قیادت واضح کررہے ہیں کہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے ،دوسری جانب انہیں سیاست میں زبر دستی گھسیٹا جارہا ہے ،ایک اہم نارمل تعیناتی کو سیاسی ایشو بنا کر ہیجان برپا کیا جارہا ہے ،اتحادی اور پی ٹی آئی قیادت کی جانب سے بے جا بیان بازی کی جارہی ہے ،

خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نئے ا?رمی چیف کی نامزدگی کا عمل آغاز ہوچکا ہے، اگر نئے آرمی چیف محض اپنے پیشہ ورانہ معاملات تک محدود رہتے ہیں تو اس ملک میں ایک نئی روایت ہوگی، وگرنہ ہماری تاریخ رہی ہے

کہ چند ماہ بعد ہی آرمی چیف کو احساس ہونے لگتاہے کہ ریاستی معاملات میں اس کا فہم وفراست حکومتی ٹیم سے وسیع تر ہے ،جبکہ پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ جسے چاہیں آرمی چیف لگادیا جائے، 26نومبر کو ایک سرپرائز ملے گا،ہمارا لانگ مارچ راولپنڈی کیوں جارہا ہے،اس کی حکمت عملی جلد سب کی سمجھ میں آجائے گی۔اتحادی حکومت لانگ مارچ کے باعث شدید دبائو میں ضرور ہے

،لیکن اس دبائو میں مزید اضافہ کے بجائے کمی لانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے ،اتحادی حکومت کا خیال ہے کہ اپنی مرضی کی اہم تعیناتی کے بعد جہاں سیاسی دبائو میں کمی آئے گی ،وہیںسیاسی مخالفین کے ساتھ دوہاتھ کرنے میں بھی آسانی ہو جائے گی ،اس لیے سارا زور اہم تعیناتی پر لگایا جارہا ہے

، اتحادی نئی عسکری قیادت سے پر امید ہے کہ ایک پیج پر ہو گی ،اس لیے اتحادیوں نے حکومت کی بھر پور حمایت کا ایک بار پھر بھر پور یقین دلاتے ہوئے واضح کردیاہے کہ اتحادی حکومت نہ صرف اپنی مدت پوری کرے گی ،بلکہ قبل از وقت انتخابات کے ہونے کا بھی دور تک کوئی امکان نہیں ہے ۔
اتحادی حکومت کی جانب سے فوری انتخابات کے اعلان کا مطالبہ رد ہونے کے بعد بھی پی ٹی آئی قیادت نہ صرف اپنے مطالبہ پر قائم ہے ،بلکہ پر امید ہے کہ اپنے لانگ مارچ کے زور اپنے مطالبات منواکر ہی رہے گی

،تاہم اس وقت تک لانگ مارچ میں عوام کی بڑی تعد کے باوجود حکومت اور مقتدر حلقوں کو شدید دبائو میں لانے کے حربے کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ،لیکن د پی ٹی آئی قیادت پر اعتماد ہے کہ26نومبر کو لانگ مار چ میںعوام کا ایک بڑا ہجوم سب کچھ ہی بدل کررکھ دیے گا ، اول تو اس کے امکان نظر نہیں آرہا ہے کہ لانگ مارچ راولپنڈی جائے گا ،اس سے پہلے بھی معاملات سلجھائے جاسکتے ہیں ،

اگر واقعی لاکھوں افراد کا مجمع راولپنڈی یا اسلام آباد چلاگیا تو پھر کچھ بھی ہو سکتا ہے ،لیکن اس کے امکان نات کم ہی دکھائی دیے رہے ہیں۔اس وقت ایک طرف عمران خان مسلسل دبائو بڑھا رہے ہیں تو دوسری جانب کسی مفاہمت کے انتظار میں تاخیری حربے بھی آزما رہے ہیں، 26نومبر کی تاریخ وہی ہے، جو کہ نئے آرمی چیف کی نامزدگی کی ہے،یہ تاریخ بہت بھاری ہوتی جارہی ہے ،اس تاریخ پر حکومت اس پوزیشن میں ہے کہ عمران خان کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا سکے نہ عمران خان ہی اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی بیچ کا راستہ نکال سکیں،سیاست میں مفاہمت کو ہی سیاسی زندگی سے تعبیر کیا جاتا ہے

لیکن یہ موجودہ سیاسی قیادت کی سیاست کا ہی کرشمہ ہے کہ انہوں نے مفاہمت کو ہی سیاسی موت کی شکل دیدی ہے ،اس کے باعث کسی بھی معاملے میں کسی فریق کے لیے مفاہمت کی کوئی راہ دکھائی نہیں دیے رہی ہے،اس صورت حال سے نکلنے کیلئے سیاسی عدم برداشت کا خاتمہ اور میں نہ مانوں کے رویوں میں تبدیلی لا ہو گی ،ہم جب تک خود کو نہیں بدلیں گے ،حالات تبدیل نہیں ہوں گے،ہم جس دن سب درست ہو گئے، یہ نظام بھی بدلے گا ،یہ ملک بھی بدلے گا اور حالات بھی بدل جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں