119

قدرتی دولت سے مالامال بلوچستان کاضلع موسیٰ خیل

قدرتی دولت سے مالامال بلوچستان کاضلع موسیٰ خیل

تحریر۔ خالد حسین
تصاویر۔ نیک دین موسیٰ خیل

صوبہ بلوچستان جسے قدرت نے بے شمار معدنی دولت سے مالا ما ل کررکھا ہے وہاں قدرت نے لاتعداد وادیوں میں اپنا حسن بھی بکھیر رکھا ہے ان دلکش وادیوں میں ایک حسین وادی موسیٰ خیل بھی ہے

جس کا شمار صوبہ بلوچستان کی اُن حسین اوردلکش وادیوں میں ہوتا ہے جو جنت نظیر وادی کشمیر سے کم نہیں ہیں ،

موسیٰ خیل بلوچستان کے شمال مشرقی سرحد پر واقع ہے جوکہ کل 7552مربع کے علاقے پر مشتمل ہے یہ ضلع صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے تقریباً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے

جو خیبرپختونخواء کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب واقع ہے اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ ضلع موسیٰ خیل صوبہ پنجاب کے ضلع تونسہ شریف سے بھی بالکل قریب واقع ہے اگر ہم یہ کہیں کہ یہ ضلع ملک کے دو صوبوںپنجاب اور خیبر پختونخواء کے سنگم پر واقع ہے

تو غلط نہ ہوگا ،1992 ء میں اسے ضلع کادرجہ دیا گیا تھا اس سے قبل یہ ضلع لورالائی کی ایک تحصیل تھاژوب ڈویژ ن سے لورالائی کو الگ کرکے نیا ڈویژن بنانے کے بعد اب یہ لورالائی ڈویژن کا حصہ ہے

اس ضلع کی کل 17 یونین کونسلیں ہیں اور سب تحصیلوں میں کنگری ، درگ، توئی سر،موسیٰ خیل اور زمری شامل ہیں یہ ضلع قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 263میں شامل ہے ، درُگ اور راڑہ شم کے علاقوں میں جعفر قبائل آباد ہیں

یہ سرائیکی زبان سے ملتی جلتی زبان بولتے ہیں جب کہ کرکنہ ، گڑ گوجی اور اندڑپور کے علاقوں میںبزدار اور قیصرانی بلوچ قبائل آباد ہیں،

اس ضلع کا کل رقبہ 2212 مربع کلومیٹر ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی آبادی 2 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے ،ضلع میں 80 فیصد موسیٰ خیل پشتون آباد ہیں اور اسی وجہ سے اس ضلع کا نام موسیٰ خیل قوم کے نام پر رکھا گیا ہے

،اس کی تاریخ سے متعلق کہا یہ جاتا ہے کہ موسیٰ نکہ کے دو بیٹے تھے ایک کا نام بیل اور دوسرے کانام لاہر نکہ تھابیل نکہ کی اولاد موسیٰ خیل شہر اور مضافات میں آباد ہوئی جسے بیل خیل کہتے ہیں جبکہ لاہرنکہ کی اولاد تحصیل کنگری میں آباد ہوئی

جسے لہرزئی بھی کہتے ہیں ان ِ اقوام کے علاوہ ایسوٹ ،مرغزانی ، زمری ، علی خیل کے اقوام بھی آباد ہیں جوکہ موسیٰ نکہ کے بھائی تھے ۔

ضلع بھر میں کل 22 بوائز اور گرلز ہائی سکول ، 25 بوائز اورگرلز مڈل سکول ،295 بوائز اور گرلز پرائمری سکول ہیں تعلیمی میدان میں صوبے کے بعض دیگر اضلاع کی طرح یہ ضلع بھی اس جدید سہولیات سے محروم ہے

سرکاری سکولوں کی اکثریت عمارتوں کے معاملے میں اس قدر خستہ حالی کا نمونہ پیش کرتی دکھائی دے گی کہ گویا کھنڈرات اور پتھر کے زمانے کی منظر کشی کی گئی ہو کئی سکول عمارت کے بغیر قوم کے نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں اور کھلے آسمان تلے قوم کے معمار علم کے چراغ روشن کررہے ہیں

بعض ایسے سرکاری سکول جو عمارتو ں میں قائم ہیں وہاں کئی سالوں سے مرمت کاکام نہ ہونے کی وجہ سے خستہ حالی منہ چڑھا رہی ہے موسیٰ خیل شہر کا سب سے بڑا سرکاری سکول گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول 1965 ء میں قائم ہوا تھا اس وقت سے اب تک وہاں صرف 5 نئے کمرے تعمیر کئے گئے ہیں

یعنی اگر ہم یہ کہیں کہ 56 سالوں میں اس سکول کی ترقی کے معاملے میں ہم نے صرف 5کمروں کی ترقی کی ہے تو غلط نہ ہوگا سرکاری سکولوں کی خستہ حالی کا ایک نمونہ بجلی اور پانی جیسی سہولیات کا ناپید ہونا ہے

جہاں دیگر ضروریات کی کمی ہے وہاں سرکاری سکول بیت الخلاء جیسی اہم ضرورت سے بھی محروم ہیں اور اس سہولت سے خواتین کے سکول بھی محروم ہیں دور جدید میں جہاں تعلیم کی اہمیت کو ہر باشعور فرد بخوبی جانتاہے

وہاں خواتین کی تعلیم کی بات تو کی جاتی ہے مگر ضروری سہولیات کی فراہمی دکھائی نہیں دیتی جوکہ ہمارے لیے کسی لمحہ فکریہ سے کم نہیں ہے ضلع بھر میں ہائرایجوکیشن کے لیے صرف ایک ڈگری کالج ہے جو راڑہ شم کنگری تحصیل میں واقع ہے۔

ضلع موسیٰ خیل قدرتی دولت سے مالامال سرسبز د شاداب ضلع ہے یہاں ڈھیروں اقسام کی معدنیات سمیت قدرتی جنگلات ، جڑی بوٹیوں ، اور مال مویشیوں کے لیے قدرتی چراگاہوں پرمشتمل اس ضلع میں زیتون، چلضوزے ، پائین کے درختوں پر مشتمل گھنے جنگلات پائے جاتے ہیں کہا یہ جاتاہے کہ ان جنگلات میں 75 سے زائد ادویات میں استعمال ہونے والی جڑی بوٹیاں کثرت سے پائی جاتی ہیں جوکہ دیہی علاقوں کے باسیوں کی زندگی میں خاصی اہمیت کی حامل ہیں

اگر ان جڑی بوٹیوں پر تحقیق کی جائے تو یہ طب کے شعبے میں کافی کارآمد ثابت ہوسکتی ہیں، قدرتی چشموں ، آبشاروںاورخوبصورت پکنک مقامات ضلع موسیٰ خیل کی شہرت کی ایک خاص بات ہیں سلئی ، حمزہ زئی ، ہزارگٹ ، چھپر ایسوٹ ،تنگی سر ، بہوپیر ،زام ویالہ سمیت ایسے لاتعداد خوبصورت اور دلکش نظاروں پر مشتمل مقامات ہیں جو سیاحت کے شوقین افراد کے لیے جنت نظیر وادی کشمیر سے کم نہیں مگر دور دراز اور سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے یہ علاقے سیاحوں کی نظروں اور توجہ سے اُجھل ہیں

،اُونچے اُنچے پہاڑوں سے گرتے ہوئے صاف اور ٹھنڈے پانی کے آبشار اور سرسبز وشاداب لہلہاتے کھیتوں ، باغات اور گھنے جنگلات سے گزرتے ہوئے صاف پانی کی بل کھاتی ہوئی ندیاں کسی طلسماتی کہانی کے منظر سے کم نہیں ہیں ۔
ضلع موسیٰ خیل میں روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ مال مویشی ہیں قدرتی چراگاہوں کی بڑی تعداد ہو نے کی وجہ سے یہاں مال مویشیوں کی کمی نہیں ہے اور اعلیٰ اقسام کے مال مویشی موسیٰ خیل سے اندرون بلوچستان بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی ان کی فروخت سے مالداروں کو اچھا خاصا منافع ملتاہے

اس ضلع کی ایک اورخاص بات یہ ہے کہ اس کے پہاڑوں میں مختلف قسم کی معدنیات پائی جاتی ہیں ،یہاں کوئلے کے و سیع ذخائر 1980 ء میں دریافت ہوئے مگر بدقسمتی سے یہاں کے قدرتی ذخائر سے کسی بھی قسم کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھایاجاسکا جس کی وجہ سے پسماندگی جابجا منہ چڑھارہی ہے غربت اور بے روزگاری کے ستائے ہوئے شہریوں کی ایک بڑی تعداد اندرون بلوچستان، صوبہ پنجاب اور سندھ منتقل ہوچکی ہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں