کرناٹک بھٹکل کے11 سالہ فلاح ایم جے انٹرنیشنل لیول کے کراٹے مقابلہ کے لیے منتخب 48

شرک وبدعات میں لپٹے ہم مسلمین بھارت پر امتحان کی یہ گھڑی

شرک وبدعات میں لپٹے ہم مسلمین بھارت پر امتحان کی یہ گھڑی

نقاش نائطی
۔ +966562677707

لاحول ولا قوة الا باللہ الھم اھدنی قومی فانھم لایعلمون بے شک یہ نادان قوم ہے، بھیڑ بکریوں کی طرح یہ وہی کچھ کرنے اور دہرانے لگتی ہے جو اس نے اپنے بڑوں کو کرتے دیکھا ہے۔لکھنو شہر کے موسی باغ قلعہ میں ایک ایسے بابا کا مزار ہے جہاں پر اس بابا کے تخیلاتی جنم دن یعنی کرسچین لوگوں کے عید کے دن،

یعنی 25 دسمبر، کرسمس والے دن سالانہ عرس منایا جاتا ہے۔ یہ بابا کوئی اللہ ولی بزرگ یا درویش صفت مجذوب نہیں بلکہ شراب و کباب و بریانی کے رسیا فرنگی مسیحی انگریز کیپٹن ویلز کی ما قبل آزادی مدفون قبر کو ہم نادان مسلمانوں نے سگریٹ والے بابا کی شکل پرستش و شرک و بدعات کا اڈہ بنایا ہوا یے۔
کہنے کو تو، اس سگریٹ والے بابا کی قبر پر عقیدت رکھنے والے کہتے ہیں کہ سچے دل سےاس قبر پر مانگی ہوئی تمام منو کامنائیں، بابا پوری کردیتے ہیں۔عموما ہر مزار پر پھول، پھول کی چادر اوراقسام کی چادر یا مٹھائی چڑھاوے کے طور چڑھائی جاتی ہے لیکن اس انگریز بابا یا سگریٹ والے بابا کی قبر پر آنے والے ہندو مسلم شردھالو، جلتی ہوئی سکریٹ، انڈا اور شراب یا برانڈی بطور چڑھاوے اس مزار پر چڑھاتے ہیں۔اور عرس والے دن کیپٹن ویلز کی مرغوب غذا بریانی پکائی جاتی ہے

ویسے توبرصغیر ھند و پاک بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں میں چوڑی والے بابا ،گھڑیالی بابا، گدھے پیر، گھوڑے پیر، بچھو پیر جیسے انیک پیر بابا کی پوجا پاٹ پرستش ہوتی ہے لیکن یوپی ہی کے کسی علاقے کے کتے پیر کا سالانہ عرس بڑا مشہور ہے۔یوپی ہی کے کسی شہر کے ایک بڑے تاجر نے ایک السیشین سفید کتا پالا ہوا تھا۔ جسے وہ بڑی محبت سے ہمہ وقت ساتھ رکھتے تھے۔چونکہ اس دنیا کی

ہر چیزفانی ہے،ایک دن وہ کتا بھی مر جاتا ہے۔ عموما ایسے مردہ جانوروں کو کچرے کے ڈھیر پر پھینکا جاتا ہے، لیکن چونکہ اس تاجر کو اس کتے سے بڑی محبت تھی، اسے اس نے کچرے کے ڈھیر پر پھینکنے کے بجائے،گاؤں کے باہر جنگل میں ایک گڑھا کھود دفن کردیا تھا اور آتے جاتے کبھی اس کتے کی یاد آنے پر، اس کتے کی مدفون جگہ پر دو چار لحظہ گاڑی روک کچھ وقت بتایا کرتے تھے۔
اس دنیا میں ہر کسی کے مقابلہ والا کوئی نہ کوئی ہوتا ہے جو اپنے مدمقابل کی ہر حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ اسی گاؤں کے ایک اسمگلر رئیس کی نظر ان پر پڑی۔ اس نے سوچا کہ اس جنگل میں گاڑی روک کر اس مخصوص درخت کے پاس کھڑے ہوکر، یہ کیا کیا کرتے ہیں۔اس کے خیال میں آتا ہے کہ کہیں اس درخت کے آس پاس کوئی بزرگ تو مدفون نہیں ہیں؟ جو یہ یہاں پر کھڑے ہوکر نہایت ادب سے دل ہی دل میں کچھ مانگ رہے ہوں؟ اور اس کی تونگری کے پیچھے ان بزرگ کی عنایتیں ہی نہ ہوں؟

اس رئیس کے کار میں بیٹھ کر جانے کے بعد،وہ اس درخت کے پاس آتا ہے اور غور سے دیکھنے پر ابھری ہوئی زمین،کسی قبر کے ہونے کا اشارہ کررہی ہوتی ہے۔ اس نے باقاعدہ قبر والے انجان بزرگ کو مخاطب کرکے کہا، “مجھے پتہ نہیں آپ کون بزرگ ہیں؟ وہ رئیس زادہ آپ سے اتنے زیادہ فیوض و برکات پانے کے باوجود، آپ کے لئے کچھ نہیں کررہا ہے ۔اے نامعلوم بزرگ، میرا جو غیر قانونی کاروبار کا مال تجارت ( شپمینٹ) دو دن بعد آرہا ہے، اگر آپ اسے بخیر عافیت مجھ تک پہنچا دیں تو، یقین جانئے،

اس ویران جگہ پر، آپ کی اس نامعلوم قبر پر، بہت عالی شان درگاہ بنا دونگا تاکہ اور بہت ساری مخلوق آپ سے براہ راست استفادہ حاصل کرسکے۔ اللہ کی مصلحت کہ دودن بعد اس کا اسمگلنگ کا مال صحیح سلامت اس تک پہنچ جاتا ہے اور وہ اس جگہ پر عالی شان درگاہ کی تعمیر شروع کردیتا ہے۔ جب یہ خبر اڑتے اڑتے اس رئیس تک پہنچتی ہے تو وہ اس اسمگلر کے پاس جاکر، اپنی کتے کے، اس جگہ مدفون کرنے کا حال بتا کر، اس جگہ پر درگاہ تعمیر کرنے کا ارادہ منسوخ کرنے کی التجا کرتا ہے

لیکن وہ اسمگلر اپنی انانیت کے زعم میں کہتا ہے اب میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا، کچھ بھی ہو وہ کتا پیر ہی صحیح،اس نے مجھے نوازا ہے اور میں اس کی شان میں درگاہ بناکر رہونگا اور اس نا معقول اسمگلر کا تعمیر کیا، کتا پیر، ہزاروں مسلمانوں کے شرک وبدعت میں پھنسنے کا موجب بن جاتا ہے
دراصل حضرت انسان اسان، شارٹ کٹ راستہ اختیار کرنے کی تگ و دو میں ہی رہتا ہے خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم کا دین اسلام، عمل کے لئے آسام تر ہے،لیکن اسلام دین پر عمل کرنے کے بعد، اسے اپنی غلط کمائی چھوڑنی پڑ سکتی ہے۔ اس لئے اپنے غلط دھندوں کی کمائی سے تمام تر عیش و عشرت والی زندگی بتاتے بتاتے،

وہ اپنی آخرت کی سرخروہی کا متمنی بھی ہوتا ہے، ایسے میں کوئی رافضی عقیدے والا بزرگ نما کوئی شخص، دینی اعمال ہی کی صورت، ایسے شرکیہ اعمال کرنے کی ترغیب اسے دے تو، حضرت انسان ان رافضیوں کے اعمال کو اپنانے سے دریغ کیوں کر نہ کرے؟ اور جب سے ان عیاش لوگوں کو اپنی تمام تر عیاشیت پر قائم رہتے، کچھ ذکر و اذکار یا مزار پر چادر تحفہ تحائف نظر کرتے، دنیا میں رہتے،

اخروی زندگی کے عذاب قبر سے آمان کی گارنٹی پالے اور کوئی انہیں ماقبل موت، جنت کو ان کے لئے لازم ملزوم قرار دے دے تو، پھر حضرت انسان کو کیا چاہئیے؟جس نبی اکرم ساقی کوثر محمد مصطفیﷺ نے لاتشرک باللہ کی ہدایت اپنے اصحاب صحابہ کرام سے بار بار کی ہو، اہل سنہ والجماعہ کا دم بھرنے والے ہم مسلمین ہی، آج سب سے زیادہ شرک و بدعات میں مبتلا پائے جاتے ہیں۔ کیا رسول اکرم ﷺ نے جن صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو مخاطب کر، “لاتشرک باللہ” مکرر کہا ہو، کیا ان میں، نعوذ باللہ آج کے فلمی ہیرو سلمان خان کے والد بزرگوار،سن رسیدہ سلیم خان تھوڑی نا تھے؟

جو باقاعدگی کے ساتھ جماعت سے جمعہ و عیدین کی نماز بھی پڑھتے ہوں اور گھر میں ہندو بھائیوں کے گنپتی مہاراج کی استھاپنا کر، پوجا پاٹھ بھی کرتے ہوں؟لاتشرک باللہ کا مفہوم چوبیس ساعتی زندگی میں، کسی بھی معاملے میں، اللہ کی صرف وحدانیت ہی نہیں، اس کی رزاقئیت، رحمانیت، غفارئیت کے ساتھ ہی ساتھ، اسکی قہارئیت پر بھی یقین کامل رکھنا ہوتا ہے۔ اللہ کی ذات کے عرش معلی پر استوی ( براجمان)

ہونے کا یقین کامل بھی رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن آج ہم عام مسلمان تو کجا،اپنے دین کے ٹھیکیداروں کو بھی،اپنے وقت کے علماء حق کے اجماع ، قابل گردن زد ٹہرائے گئے فیصلے، کفار و مشرکین کے، ہر چیز میں ایشور کی موجودگی والے، ابن عربی کے، “وحدة الوجود” کے نظریہ کو، مانتے ہوئے، ہم پاتے ہیں، یہی وہ نظریہ ہے جو نماز روزہ جیسے دینی اعمال سے بےگانہ، ہفتوں مہینوں سے بغیر نہائے،گندے اور ناپاک رہنے

والے پاگلوں کو تک، مجذوب بزرگ ٹہراتے، ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر بنائے گئے مزاروں پر، ہم مسلمانوں کے شرکیہ اعمال کے دروازے وا کیا ہم نہیں پاتے ہیں؟ابھی دو تین دہے قبل کی بات ہے، ایسے ہی گلیوں میں گھومنے والے گندے ناپاک پاگل کی موت بعد، مایا نگری ممبئی بھنڈی بازار، عبدالقادر حافظکا محلہ میں،

کروڑوں کی لاگت سے بنے درگاہ کو ہم پاتے ہیں،جہاں پر اس پاگل (مجذوب) کی مرغوب چاء ہمہ وقت فری تقسیم کی جاتی ہے۔بکریوں، بچھو، کتے، گھوڑے گدھوں والے انیک مزاروں پر کروڑوں انپڑھ جاہل گنوار مسلمانوں کے ساتھ ہی ساتھ، پڑھے لکھے ماڈرن مسلمانوں کو بھی شرک وبدعات میں لپٹے ہم پاتے ہیں۔ یہ ہمارے شرکیہ اعمال ہی ہیں جو رحمن و رحیم کے ساتھ جبار و قہار، رب کائنات نے، ہم مسلمانوں پر،

مشرک مودی یوگی شاہ کو،ظالم حکمران کی صورت نازل کیا ہوا ہے۔کاش کہ ہم بھارتی مسلمان اپنے نبی آخرالزمان،خاتم الانبیاء، سرور کونین محمد مصطفی ﷺ کے، آسان، بہت آسان پانچ ارکان والے، وہ بھی تین چوتھائی غریب مسلمین کے لئے، ایمان کامل کے ساتھ نماز روزہ والے صرف، دو ارکانی، دین حنیف پر، عمل پیرا پائے جائیں اور اپنے اخلاق حمیدہ سے، برادران وطن کے سامنے، دین اسلام کے سفیر (ایمبیسیڈر) کے طور عملی زندگی گزارنے والے بنیں تو یقینا برادران وطن، ہم سے متاثر ہوکر، دین اسلام میں کھینچے چلے آئیں گے۔

آج بھارت کی کروڑوں آبادی والی دلت، پچھڑی جاتی آدیواسی برادری، ان کے اپنے منو وادی برہمنوں کے چھوت چھات والے استحصال سے پریشان، مساوات والے دین اسلام سے قدرے متاثر ہیں لیکن ہمارے غیر اسلامی، اخلاق و اقدار انہیں مساوات والے دین اسلام سے دور رکھے ہوئے ہیں۔کاش کہ ہم بھارتی مسلمان، اسوء رسول مجتبی سرور کونین خاتم الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کے عملا کر دکھائے،

اخلاق حمیدہ والے مسلمان بن جائیں تو پھر وہ دن دور نہیں،یہ ایشور کے دودھ رشی منی منو (حضرت نوح علیہ السلام) کو ماننے والی، تاحال کلمہ طیبہ کے آدھے حصہ توحید پر قائم، مورتیوں کی پوجا سے ونچت یا احتراز کرنے والے سوامی اگنی ویش جیسوں کے سناتن دھرمی ہندو دھرم کے ساتھ دلت آدیواسی پچھڑی جاتی برادران وطن بھی دائرہ اسلام میں آتے، ایک مرتبہ پھر ہم مسلمین کا وہ تابناک دور واپس نہ آجائے۔ وما علینا الا البلاغ مرادآباد 50 دلت اپنا آبائی دھرم چھوڑ اسلام قبول کرنے کا اعلان 2020 میں کیا تھا

مدھیہ پردیش کے ساگر کے کتے کتیہ کا مزار

امروہہ کے بچھو والی مزار

لکھنو موسی باغ سگریٹ والے بابا کا مزار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں