43

سیاست میں مفاہمت کی کھلتی راہیں !

سیاست میں مفاہمت کی کھلتی راہیں !

تحریک انصاف قیادت نے اپنا انتخابات کروانے کامطالبہ پورا کروانے کیلئے سب سے اہم پتااسمبلیوںکی تحلیل کاکھیل دیا ہے،اس کے خاطر خواہ نتائج جلد ہی سامنے آنے لگے ہیں ، ایک طرف وزیر خزانہ اسحاق ڈار ایوان صدر کے پھیرے لگانے لگے ہیں تو دوسری جانب صدر مملکت بھی ان کی مفاہمانہ صلاحیتوں کے معترف دکھائی دیے رہے

ہیں،مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی اپنے ایک بیان میں مذاکرات کا ڈول ڈالنے کی بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست دانوں کے رابطے سے ہی سیاسی و معاشی بحران سے بچایا جاسکتا ہے، سیاسی قیادت کے بیانات سے ایسا ہی لگتا ہے کہ سارے فریق جان چکے ہیں کہ مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا بہترراستہ ہے ۔سیاست میں عمومی طور پر دروازے بند نہیں کیے جاتے ہیں، اگر دروازے بند ہو جائیں

توایک کھڑکی کو ضرور کھلا رکھا جاتا ہے، تاکہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نکلتانظرآئے تو اسے ہر صورت اختیا رکیا جاسکے،تاہم ہماری سیاست دروازے کھولنے یا اس میں کھلنے کے امکانات پیدا کرنے کی بجائے اسے مزید بند کر کے قومی سیاست کو بند گلی میں لے جا رہے ہیں، اس کڑوے سچ کو تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری قومی سیاست میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ لڑائی جمہوری یا سول حکمرانی کی لڑائی یا کسی اصول او رنظریے کی بجائے محض طاقت یا اقتدار کے کھیل میں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے،اس مفاداتی لڑائی کے باعث ہی مفاہمت کے دروازے بند دکھائی دیتے ہیں ۔
سیاست میں مذاکرات سے ہی مفاہمت نکے دروازے کھلتے ہیں ،لیکن مذاکرات کے نام پر نشستن گفتن برخاستن نہیں ہو نا چاہئے ،اس کے کچھ مثبت اثرات بھی قوم کے سامنے آنے چاہئے ، اس وقت ہم قومی سطح پر جن پے در پے بحرانوں میں پھنس چکے ہیں ،اس سے نجات کیلئے باہمی اتفاق رائے سے کوئی مؤ ثر حکمت عملی کی راہ پر پیراں ہونا ہو گا

،لیکن یہاں پر سیاسی قیادت کا ایک دھڑافوری انتخابات کو درپیش بحرانوں سے نجات کی امید قرار دیتا ہے ،جبکہ حکومتی دھڑے کی رائے بالکل ہی مختلف ہے ، وہ اقتدار میں اپنی مدت پوری کرنا چاہتے ہیں،اس آرا کے اختلاف نے سیاسی تلخیوں میں انتہائی اٖضافہ کر دیا ہے ،تاہم صدر مملکت اور وفاق وزیر خزانہ کی ملاقاتوں سے امید کی ایک نئی رمق پیدا ضرورہوئی ہے ،لیکن سیاسی دھڑوں کی سوچ میں اتنا زیادہ تذاد پایا جاتاہے

کہ فوری مثبت نتائج کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہین کیا جاسکتا کہ حزب اقتدار اور حذب اختلاف کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں، جو کہ مذاکراتی عمل کے آڑے آرہے ہیں ،لیکن دونوں ہی فریق بخوبی جانتے ہیں کہ مذاکرات ہی آگے بھڑنے کا راستہ ہے ،اگر اسحاق ڈار بار بار صدر مملکت سے مل رہے ہیں تو انہیں میاں برادران کے ساتھ آصف زردار کی بھی اشیر باد حاصل ہے ،

اس طرح صدر عارف علوی کی جانب سے پی ٹی آئی کو مقتدرحلقوںکے خلاف بیان بازی سے متنبہ کرنا واضح کرتا ہے کہ انہیں بھی آگے کوئی اُمید کی کرن نظر آرہی ہے ،اس وقت بدلتے سیاسی حالات میں ایسا محسوس ہورہا ہے کہ پی ٹی آئی سسٹم میں دوبارہ شامل ہونے پر آمادگی کا اظہار کر سکتی ہے،جبکہ حکومت بھی انہیںدو سے تین ماہ قبل الیکشن دے کر ایک ساز گار ما حول تیار کر سکتی ہے ۔
یہ وقت کا تقاضا اور قومی ضرورت ہے کہ سیاسی مخالفین ہٹ دھرمی چھوڑ کرایک قومی ایجنڈے پر اتفاق کرتے ہوئے آگے بڑھا جائے ، ملک بھر میں بڑھتے مسائل اور سیاسی جمود اس رائے کو تقویت دیتے ہیں کہ نئے انتخابات ہی بحرانوں سے نکلنے کی صورت پیدا کرسکتے ہیں ،مگرعام انتخابات سے قبل سیاسی دھڑوں میں کچھ اصولی اتفاق کی صورت پیدا ہونا بھی ضروری ہے ،اس سلسلے میں پیش رفت اسی صورت ممکن ہے کہ جب دونوں فریق اپنے روئیوںمیں لچک دکھائیں گے، حزب اقتدار اور حذب اختلاف مختلف اوقات میں مل بیٹھ کر بات کرنے کی مشروط پیشکش کر چکے ہیں ، اس
پیشکش پر دونوں جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں دیکھا یاگیا ،لیکن حکومت کو اب مفاہمت کا قدم اُٹھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہئے، سیاست میں مزاکرات سے ہی مفاہمت کی راہیں کھلتی ہیں،د ونوںفریق میںبات چیت سے ہو سکتا ہے کہ حکومت اپنی تجاویز منوانے میں کا میاب ہو جائے یا دوسرے فریق کی بات مان جائے ،اگر بات چیت سے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں گے تو ہی مسائل حل ہوں گے بصورت دیگر سبھی گھاٹے میں ہی رہیں گے اور کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں