30

پاک افغان کشیدگی میں دانشمندانہ پا لیسی !

پاک افغان کشیدگی میں دانشمندانہ پا لیسی !

پاکستان کی مشرقی سرحد تو بھارت جیسے کینہ پرور دشمن کے معاندانہ عزائم کی وجہ سے روز اول سے غیر محفوظ رہی ہے ،لیکن اب افغانستان کے ساتھ مغربی سرحدی علاقے بھی محفوظ نہیں رہے ہیں،آئے روز افغان سر حدی علاقوں میں پر تشدت واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ، گزشتہ دنوںپاکستان اور افغان حکام کے درمیان مذاکرات میں طے پایا تھا کہ سرحد پر 30 فٹ تک اسلحہ بردار اہلکار تعینات نہیں کئے جائیں گے،

روزانہ کی بنیاد پر اہلکاروں کی فہرست کا تبادلہ کیا جائے گا،کسی بھی غیر متعلقہ شخص کی موجودگی کو روکنے کے لئے دونوں جانب اہلکار اپنا چہرہ کھلا رکھیں گے، قندھار انتظامیہ کی اجازت ہی سے لوگ پاکستان آ سکیں گے، جبکہ پاکستانی اہلکاروں پر فائرنگ میں ملوث ملزم کو جلد از جلد گرفتار کر کے سزا دی جائے گی، لیکن یک بعد دیگرے پر تشدت واقعات پیش آنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے

کہ جیسے کہیں نہ کہیں کوئی کوتاہی ضرور ہو رہی ہے۔پا کستان ہمیشہ سے افغانستان کی ہر معاملے میں معاونت کر تا آرہا ہے ،لیکن اس کے جواب میں افغانستان پاکستان کے مثبت جذبات کی قدر کم ہی کرتا ہے، اتوار کو پیش آنے والے ایک تازہ واقعے میں افغان بارڈر فورسز نے بلوچستان کے علاقے چمن میں فائرنگ کر کے 6 پاکستانی شہریوں کو شہید کردیا ،جبکہ 17 زخمی ہو ئے ہیں، (آئی ایس پی آر) کے مطابق،

آبادی کو بلااشتعال فائرنگ کا نشانہ بنایا گیاہے،اس واقعے کے دوران افغان بارڈر فورسز نے مارٹر گولوں سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا ہے، پاکستانی سرحدی دستوں کی طرف سے فائرنگ کا مؤثر جواب دیا گیا، تاہم اس دوران بھی معصوم افغان شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا گیا ہے۔
امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد سے افغانستان جن بڑے مسائل میں گھرا ہوا ہے، اگر ان کیلئے کوئی ایک ملک افغانستان کا بھرپور ساتھ دے رہا ہے تو وہ پاکستان ہے،افغان حکومت کو اس بات کا احساس ہونا چاہیے

کہ امن و سلامتی کا قیام صرف پاکستان ہی نہیں ،بلکہ افغانستان کی بھی ضرورت ہے،اس کے باوجود پا کستان ہی کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے،رواں مہینے میں ہی پاکستانی سفارتخانے پربھی فائرنگ کی گئی، یہ حملہ اْس وقت کیا گیا کہ جب پاکستانی ناظم الامور عبید الرحمان نظامانی عمارت کے احاطے میں چہل قدمی کر رہے تھے، وہ تو محفوظ رہے ،لیکن اْن کے گارڈ اسرار محمد نشانہ بن گئے تھے،

پاکستان کی جانب سے اِس واقعے کی مذمت کی گئی اور افغان ناظم الامور کو دفترخارجہ طلب کر کے حملے پر تشویش اور غم و غصے کا اظہاربھی کیا گیا،لیکن افغان سر حد پر کشیدگی کم ہورہی ہے نہ سر حد پار سے در اندازی کی روک تھام کی جارہی ہے،تاہم پا کستان کشیدگی میں بھی دانشمندانہ پالیسی پر عمل پیراں ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئے سوا سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، اِس دوران پاکستان کی حکومت نے افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، افغانستان پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے، اسلامی ملک ہونے کے ناطے برادرانہ مراسم کی اْمید رکھی جاتی رہی ہے،

لیکن دونوں ممالک کے تعلقات اتار چڑھاؤ کا شکار ہی نظر آرہے ہیں، گزشتہ ایک ماہ سے پے در پے جو ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ جس کا اثر دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی پڑ سکتا ہے،اس کی وجہ چاہے کچھ بھی رہے ، افغان سکیورٹی فورسز کے پاس شہری آبادی پر فائرنگ کرنے کا کوئی جواز تھا نہ ہی اْن سے ایسی کوئی اْمید کی جا سکتی تھی کہ افغان سر حد پرپا کستانیوں کو نشانہ بنایا جائیگا ،

پاکستان نے ہمیشہ افغان حکومت کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت کا نعرہ بھی بلند کیا ہے، اس کے باوجود پاکستان خود ہی سر حد پار سے دہشت گردی کا مسلسل شکارہو رہا ہے۔افغانستان کو اپنی صفوں میں جھانکنا ہو گااور دیکھنا ہو گا کہ کون ایسا کررہا ہے، دونوں طرف کی حکومتوں کو چاہئے کہ اِن واقعات کی مکمل تحقیقات کرائیںاور مجرموں کو منظرِعام پر لایا جائے،

لیکن یوں معلوم ہوتاہے کہ کوئی تو ایسی قوت ہےکہ جو پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستانہ تعلقات کے مخالف ہے، کہیں نہ کہیں کوئی تو کالی بھیڑ ہے کہ جس کی نشاندہی ازحد ضروری ہے،طالبان اور پاکستانی حکمرانوں کو چاہیئے کہ آپس میں مل بیٹھ کر سازشی عناصر کاسد باب کر نے کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کو سلجھایا جائے، اگر ایک بار پھر مذاکرات سے معاملات سلجھانے کے بجائے بندوق کا سہارا لیا

گیاتو طالبان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بندوق مسئلہ کا حل نہیں ہے تو پھر مل بیٹھ کر ہی معاملات سلجھانے ہوں گے ، اگر اس بڑھتی کشیدگی میں دونوں حکمرانوں نے کچھ حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو پھر اس کے لیے نہ صرف کوشش کرنا ہو گی ،بلکہ اس مرتبہ ہر قیمت بھی خود ہی ادا کرنا ہو گی ،کیو نکہ اس بار عوام مزید کوئی بھی قیمت دینے کیلئے تیار نہیں ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں