60

مذاکرات اب نہیں تو کب ہوں گے !

مذاکرات اب نہیں تو کب ہوں گے !

تحریک انصاف قیادت نے جب سے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کیا ہے، پی ڈی ایم حکومت کچھ زیادہ ہی گھبراہٹ میں دکھائی دینے لگی ہے ،اتحادی پہلے کہتے تھے کہ عمران خان اپنی صوبائی اسمبلیاں توڑیں تو ہم بھی قومی اسمبلی کی تحلیل کا اعلان کر دیں گے، پی ٹی آئی قیادت نے صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا اعلان کیا تو پی ڈی ایم اپنے دعوئوں سے یو ٹرن لینے لگی ہے ، پی ڈی ایم قیادت سمجھ رہے تھے

کہ عمران خان کسی بھی حالت میں اسمبلیاں تحلیل نہیں کریں گے، لیکن عمران خان کے اعلان کے بعد جب پنجاب کے وزیر اعلیٰ ٰچودھری پرویز الٰہی نے بھی کہہ دیا کہ یہ اسمبلی عمران خان کی امانت ہے، وہ جب حکم دیں گے ، اسمبلی تحلیل میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے تو اتحادی حکومت کی دوڑیں لگ گئی ہیں ،اتحادی قیادت اب کبھی مذاکرات کی بات کررہے ہیں تو کبھی اسمبلی میں واپسی کی دعوت دیے رہے ہیں

،جبکہ پی ٹی آئی اپنے مطالبے پر قائم ہے کہ انتخابات کے اعلان کے بعد ہی مذاکرات و مشاورت کی جاسکتی ہے ۔ملک بحران دربحران میں پھنستا جارہا ہے اوراتحادی حکومت درپش بحرانوں پر قابو پانے کے بجائے محاذ آرائی کی راہ پر گامزن ہے ، اتحادی حکومت اپنا اقتدار بچانے کیلئے ملکی معیشت کو بھی دائو پر لگارہی ہے

،جبکہ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام ہو گا تو ہی معاشی استحکام بھی آئے گا،ملک میں سیاسی استحکام لانے کیلئے انتخابات نا گزیر ہیں ،مگرحکومت انتخابات سے مسلسل بھاگ رہی ہے ، اتحادی انتخابات کروانے سے خو ف زدہ ہیں ،کیو نکہ انہیں انتخابات میں اپنی ہار صاف نظر آرہی ہے ،

اتحادی حکومت کب تک عام انتخابات کے اعلان سے بھاگتی رہے گی ،حکومت کودیر یاسویر انتخابات تو کرواناہی پڑیں گے ،اس حوالے سے چودھری فواد حسین کہنا ہے کہ ہم نے کافی انتظار کے بعد ہی صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا فیصلہ کرتے ہوئے 20دسمبر تک کی تاریخ دی ہے، اتحادی حکومت کے پاس وقت کم ہے ،لیکن بروقت فیصلہ سازی سے آنے والے بحران سے بچا جاسکتا ہے۔
اس بدلتی صورتحال میںپی ڈی ایم ایک طرف مذاکرات کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب عمران خان جب کہتے ہیں

کہ حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں،اس پر حکومت تاریخ دینے سے گریزاں نظر آتی ہے، تاہم پی ٹی آئی کی جانب سے اسمبلیوں کی تحلیل کی تاریخ کے اعلان کے بعد ایک بار پھر کچھ برف کے پگھلنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، صدر عارف علوی اور اسحاق ڈار بھی بڑی گرم جوشی سے ثالثی کا کردار ادا کررہے ہیں،پی ڈی ایم کی خواہش ہوگی کہ اسحاق ڈارپی ٹی آئی قیادت کو اکتوبر تک انتظار کرنے پر رضامند کرلیں اور اس کے درمیان میں الیکشن کے طریقہ کار پر گفت و شنید ہو جائے تو ہم ایک شفاف الیکشن کرانے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔
پی ڈی ایم کی پوری کوشش ہے کہ اسمبیاں اپنی مدت پوری کریں ،جبکہ تحریک انصاف قیادت فوری انتخابات کے انعقاد کیلئے سب کچھ کر گزرنا چاہتے ہیں ، اس حوالے سے عمران خان نے اپنا ترپ کا پتا بھی کھیل دیا ہے ،تاہم سننے میں آرہا ہے کہ پرویز الٰہی اپنی دستخط شدہ سمری عمران خان کو دینے کے بعد بھی کوشاں ہیں کہ انہیں کم از کم چار ماہ کاوقت مل جائے، تاکہ انہوں نے ترقیاتی کاموں کے جو منصوبے شروع کیے ہیں،

اگر پورے نہ بھی ہو سکیں تو اتنی پیش رفت ضرور ہوجائے کہ بعد کی آنے والی حکومت اسے ختم نہ کرسکے، اس درمیان میں عمران خان کچھ آرام کرلیں اور ان کے زخم بھی ٹھیک ہوجائیں،کیو نکہ انتخابات کے اعلان کے بعد انتخابات میں جیت کیلئے بھی ایک بھر پور جدجہد کرنا ہو گی ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ملک کو درپیش تمام مسائل کا حل شفاف انتخابات کے انعقاد میں ہی ہے ، لیکن سوال یہ ہے

کہ جب تک سیاسی قیادت اپنے اختلافات ختم نہیںکریں گے اور اپنے معاملات سیاسی انداز میں حل نہیںکریں گے ،تب تک شفاف انتخابات کیسے ہوں گے؟ شفاف انتخابات کے لیے تمام سیاسی جماعتوں اور متعلقہ اداروں کے درمیان معاملات طے کیے جانے ضروری ہیں اور یہ ایک دوسرے سے بات چیت کے بغیر ممکن نہیں ہے

،پی ٹی آئی قیادت اداروں کی طرف دیکھ رہے ہیں اور حکومت جانتے ہوئے بھی کہ سیاسی معاملات سدھارے بغیر معاشی حالات درست سمت پر نہیں ڈالے جا سکتے عملی قدم اْٹھانے سے گریزاں ہے، دونوں اطراف سے ہی زبانی جمع خرچ پر اکتفا کیا جا رہا ہے، اس کی وجہ سے اب تک کوئی مؤثر مذاکراتی عمل شروع ہی نہیں ہو سکا ہے ،یہ مذاکرات اب نہیں تو کب ہوں گے، کیا ہی اچھا ہو کہ فریقین ضد اور اَنا ایک طرف رکھ کر سنجیدگی سے مذاکرات شروع کر دیں، اگرفریقین کی نیت صاف ہو گی تو نتیجہ بھی ضرور اچھا ہی نکلے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں