اتفاق رائے کی کوئی رہ نکالی جائے !
پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی دونوں سیاسی قوتیں اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں، پی ٹی آئی جلد از جلد اقتدار کے حصول کی فکر میں ہے، جبکہ پی ڈی ایم اقتدار بچانے کی تگ و دو میں ہے،تحریک انصاف قیادت نے آئندہ ہفتے اپنی دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کردیا ہے ،جبکہ اس کے جواب میں اتحادی حکومت دونوں صوبوں میں تحریک عدم اعتماد لانے کا عندیہ دیے چکی ہے ،عدم اعتماد تحریک پیش ہونے کی صورت میں اسمبلیاں تحلیل نہیں ہو سکیں گی
،مگر عدم اعتماتحریک میں کامیابی کے بعددوبارہ اسمبلیاں تحلیل کی جاسکتی ہیں ،آئندہ ہفتے صوبائی اسملیاں تحلیل ہوتی ہیں کہ عام انتخابات کا اعلان ہو تا ہے ،اس بارے کچھ واضح نہیں ہے ، تاہم آنے والا ہفتہ سیاسی لحاظ سے خاضی اہمیت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔یہ امرواضح ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے خاتمے کے بعد پچھلے سات ،آٹھ ماہ سے قومی سیاست کوئی تعمیری رخ اختیار کر سکی نہ ملکی معیشت اور قومی زندگی کے دیگر پہلوئوں پر اچھے اثرات مرتب ہوئے ہیں ،اس وقت معیشت بدترین حالات سے دوچار ہے
،مہنگائی ناقابل تصور حدتک بڑھ چکی ہے ،عوام کیلئے دووقت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے ،یہ سب کسی بیرونی محرکات کے نتیجے میں نہیں ،بلکہ داخلی عدم استحکام کے باعث ہورہا ہے ،سیاسی انتشار نے ان سات ،آٹھ ماہ کے دوران جس بری طرح ملک کو جھنجورا ہے ،اس کی مثال پچھلی کئی دھا ئیوں میں ملنا مشکل ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ملک سیاسی و معاشی بحران سے دوچار ہے اور سیاسی قیادت محاذ آرائی کی بھول بھلیوں میں پھنسے ہوئے ہیں ،اس سے نکلنے کا راستہ سجھائی دیے رہا ہے نہ کوئی راہ تلاش کی جارہی ہے ،قوموں کی زندگی میں مشکل دور آتے ہیں ، لیکن اس دور سے قومی قیادت ہی اپنے اختلافات بھلا کر نکالتے ہیں ،ہماری سیاسی قیادت میں کسی نقطے پر اتفاق رائے کی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی ہے
،قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ جس میں کشیدگی کم ہونے کانام لے رہی ہے نہ ہی معاملات سلجھانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر آرہی ہے ،اس کے نتیجے میں آئے روز بحران شدت اختیار کرتا جارہا ہے اور ملکی معاشی ساکھ اور اعتماد کمزور تر سطح پر پہنچتا جارہا ہے۔
یہ انتہائی باعث شرم ہے کہ اتحادی حکومت اپنی کوتاہیاں اور اپنی نااہلیاں ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہے ، اُلٹا سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالنے کی روش دہرائے جارہی ہے ، اگر اتحادی حکومت کے سات ماہ کے دوران تنزلی کو مد نظر رکھا جائے تو آنے والے وقت میں اس کے گراف میں بہتری کے آثار دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ،اس کے باوجود اتحادی اقتدار چھوڑنے کیلئے تیار ہیں نہ فوری انتخابات کا مطالبہ مان رہے ہیں
،بجائے اس کے کہ اس مطالبے کو کشمکش کا محرک بنایا جائے اور ملک میں مزید سیاسی انتشار میں اضافے کے اسباب پیدا کیے جائیں ،حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے کی کوئی ایسی صورت پیدا ہونی چاہئے کہ جو دونوں فریق کیلئے قابل قبو ل ہوجائے ،لیکن یہ اسی صورت ممکن ہے کہ جب سیاسی قیادت ذاتی مفادات اور سیاسی اَنا سے خود کو آزاد کرتے ہوئے وسیع ترقومی مفاد میں فیصلے کریں گے۔
یہ افسوس ناک امر ہے کہ سیاسی قیادت نے میں نہ مانوں کی قسم کھارکھی ہے،اس لیے غلطیوں پر غلطیاں دہرائے جارہے ہیں ،ہماری قیادت صرف اور صرف دورغ گوئی کے سہارے اپنے لوگوں میں جھوٹ تقسیم کر رہے ہیں، اگر کوئی سوال کرے یا تنقید کرے تو غدار یا کم از کم ملک دشمن قرار دیے کر بے موت مار دیا جاتا ہے،
ہمارامعاملہ بالکل سادہ ہے، ہماری موجودہ تباہی اور انتشار صرف اور صرف ہماری اندرونی گھٹیا‘ عوام دشمن پالیسیوں کا نتیجہ ہے، مگریہاں کوئی بھی اپنی غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہے نہ خود کو سدھانے کی راہ پر گامزن کرنا چاہتا ہے ،ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور مود الزام ٹہرانے کی ایسی روایت چل نکلے ہیں کہ اسے چھوڑنے کیلئے تیار ہیں نہ اتفاق رائے کی کو ئی راہ نکال رہے ہیں ۔
ملک میں سیاست صرف مسائل پیدا کرنے کا ہی نام نہیں، بلکہ مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری بھی اہل سیاست پر ہی عائد ہوتی ہے،
حکومتی حلقوں کو بھی چاہئے کہ وہ ماحول میں تلخی بڑھانے کی بجائے اسے کم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں،الیکشن جلد یا بدیر ہونے ہیں، کیوں نہ اس پر اتفاق رائے پیدا کرکے قوم کی بے یقینی کو ختم کیا جائے، امید ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے برف پگھلنے کے جو آثار نمایاں ہورہے ہیں، ان سے سیاسی قوتیں بھی فائدہ اٹھائیں گی اور ملک کو اس سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کی سنجیدہ کوشش کریں گی جو کہ پہلے ہی ان کی کو تاہیوںکے باعث بہت زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔