42

محبت کی زباں

محبت کی زباں

تحریر.فخرالزمان سرحدیس
..پیارے قارئین کرام!تاریخ کا مطالعہ کریں تو حقیقت منکشف ہوتی ہیکہ اسلام ہی ایک عالگیر دین ہے جس کی تعلیمات روشن اور درخشانی کا مرقع ہیں.یہ روشن تعلیمات دلوں سے جہالت کے اندھیرے رفو کرتی ہیں اور دلوں میں انس ومحبت کے چراغ منور کرتی ہیں.اسلام کا فلسفہ تعلیم اس قدر وسیع اور جامع ہے

جسے مطالعہ کرنے اور سمجھنے سے علم وحکمت کی افادیت واضح ہوتی ہے.اس کا سرچشمہ قرآن مجید اور سیرت رسول ﷺہیں.ماضی کے تاریخی جھروکوں میں جھانک کر دیکھیں تو سب سے خوب صورت انقلاب عرب کے روشن ضمیر آقا نے لایا.احترام انسانیت کا درس دیا.عقائد اسلامی,عبادات,نظریات,سے رنگ حیات میں خوب صورت نکھار پیدا کیا.محبت کی زباں کے بے شمار فوائد ہیں.

اس ضمن میں اہم بات جو کسی بھی صورت معاشرے کے حق میں خوش آئند نہیں وہ معاشرے میں انتشار اور فسادات ہیں جن سے معاشرتی زندگی سخت متاثر ہوتی ہے.یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ اگر ہم نے خراب حالات کو درست سمت میں متعین کرنا مقصود ہے تو تعلیم کے فروغ پر توجہ مرکوز کرنی ہے اور جامع لائحہ عمل مرتب کرنا ہے.اس کے مطابق زندگی سفر طے کرنا ہے.آپس میں اتحاد اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہے

.اس ضمن میں اتنی سی بات کہی جا سکتی ہے کہ آواز چونکہ ایک خزانہ اور عطیہ الٰہی ہے.اس لیے اس کا استعمال مناسب,اچھا اور معتدل رہے تو معاشرتی زندگی پرخوسگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں.ادبی اور علمی تحریروں اور تقاریر سے معاشرے کی فضا بہت بہتر بنائی جا سکتی ہے.محبت کی زبان کا فلسفہ ماہرین اور مفکرین نے اپنے اپنے منفرد انداز سے بیان کیا.میٹھی گفتگو اور طرز تکلم سے نہ صرف انسان کا وقار بلند ہوتا ہے بلکہ معاشرے میں پرامن فضا بھی پیدا ہوتی ہے.اہل علم ودانش معاشرے کا سرمایہ ہوتے ہیں.

آداب زندگی کا قرینہ اور سلیقہ صرف علم کی دولت اور بہتر تربیت سے میسر آتا ہے.ہمدردی,اخلاص,اور رواداری سے عبارت زندگی اور بھی حسین وجمیل روپ دھارتی ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کی درست خطوط پر تعلیم وتربیت کی جائے.بقول شاعر!اخوت کا بیاں ہو جا,محبت کی زباں ہو جا.وہ لوگ کبھی نہیں بکھرتے جو جو اچھی عادات کے مالک ہوتے ہیں.ان کی نوک زباں سے پھول جیسے کلمات ادا ہوں .

معاشرتی امن کی بحالی میں اچھے الفاظ بہت قیمتی کردار ادا کرتے ہیں.سوشل میڈیا اور عام حالات میں امن کی خوبصورتی کی جھلک اسی وقت محسوس کی جا سکتی ہے جب زبان اور الفاظ کا استعمال میانہ روی سے کیا جائے.اتحاد,اتفاق,بھائی چارہ اور ادب و احترام کے پیمانے فروغ پاتے ہیں.تعلیمی اداروں میں بھی اچھی تربیت کے لیے اچھے الفاظ کا استعمال ضروری ہے.قوم کے بچوں کے ساتھ اچھی گفتگو کی جائے

تو ان کی زندگی میں خوب صورت تبدیلی رونما ہوتی ہے.نوجوان نسل قیمتی سرمایہ ہے.ان کی معاشرتی,اخلاقی,مذہبی,سماجی تربیت سے بہت اچھی فضا پیدا ہوتی ہے.آئیں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق معاشرے میں قوت برداشت کو فروغ دیں.اس طرز عمل سے زندگی بہتری اختیار کر پاتی ہے.اچھے رویے پیدا ہو پاتے ہیں,اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں.نفرتیں نہیں محبت کی زباں کا استعمال بہتر ہوپاتا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں