44

بے نظیر بھٹو شہید

بے نظیر بھٹو شہید

تحریر ۔ محمد عمر شاکر
دنیا ہمیشہ ایسی شخصیات جو ملک وقوم کے لئے فلاح و بہبود کے لئے اپنی جان کی پروا کئے بغیر کچھ کر جائیں یاد رکھتی ہے تاریخ میں زندہ رہنے کے لئے وقت مال اور جان کی بھی قربانی دینی پڑتی ہے ایسا ہی سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے کیا اور رہتی دنیا تک انہیں ایک با صلاحیت بہادر نانڈر لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے گا

نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی بے نظیر بھٹو21جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئی، پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آنگن میں آنکھ کھولنے والی پنکی ملکی سیاست کا ایک چمکتا دمکتا درخشاں ستارہ بنی دنیا نے تسلیم کیا کہ شہید بی بی کاصرف نام ہی نہیں ان کے کارنامے بھی بے نظیر اور تا قیامت ہمیشہ یاد رکھنے والے تھے

جوانی میں قدم رکھا تواعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ اور امریکہ کا انتخاب کیامحترمہ بے نظیربھٹوصاحبہ دنیا کی واحد خاتون لیڈر تھی جس نے تعلیمی میدان میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی کمال کر دکھایااپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی قید سے لے کر پھانسی تک آمریت کے دور میں بینظیر بھٹو نے ہر مصیبت اور مشکل کا ثابت قدمی اوربہادری سے مردانہ وار مقابلہ کیا

بے نظیر بھٹو شہید نے کراچی آکسفور ڈ اور اورہاوورڈیونیورسٹیوں میں اعلی ٰ تعلیم حاصل کی چار اپریل1979کو جب انہیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد نا مساعد حالات میں پچییس برس کی عمر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی شریک چیئرمین بنایاگیافوجی آمر جنرل ضیاکا بدترین اور بھیانک دور تھاضیاکے آمرانہ دورمیںوہ کئی سال تک نظر بند رہی یہ ہی نہیں انہیں جبری طورپر ملک چھوڑنے پر مجبورکیا گیا کیا کیا

ظلم نہیں ڈھائے گئے مگر دور جلاوطنی میں بھی انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت کی اور والد کے نقش قدم پر چلتی رہی مملکت پاکستان میں ایک بھیانک دور یعنی ضیا کے مارشل لاء کا جب خاتمہ ہوا تو 10اپریل 1986کو جلاوطنی کاٹ کر لاہور پہنچی جہاں پر پاکستان پپلز پارٹی کے کارکنوں نے اپنی عظیم لیڈر کا تاریخی ووالہانہ استقبال کیابعد آزاں18 دسمبر 1987کو آصف علی زرداری سے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شادی ہوئی

جس کے بعد 16نومبر1988کوجب عام انتخابات منعقد ہوئے تو پاکستان پیپلزپارٹی اس ملک کی سب سے زیادہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی بن کر ابھری جس کے نتیجے میں وہ 1988کو پاکستان اور عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں تاہم ان کی حکومت زیادہ عرصے تک قائم نہیں رہ سکی اور 20ماہ بعد ہی شازشوں سے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا
1990ء سے 1993ء محترمہ بے نظیر بھٹو قائد حزب اختلاف کا فریضہ انجام دیتی رہیں اور 1993ء میں منعقد ہونے والے

عام انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک مرتبہ پھر وزیراعظم منتخب ہوگئیں اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے بعد انہیں یہ اعزازہے کہ وہ دوسری شخصیت تھیں جو دوسری مرتبہ پاکستان کی وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئی تھیں
5 نومبر 1996ء کو انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے ہی صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری نے ان کی حکومت کو سازشیوں کے ساتھ ملکر برطرف کردیاسازشی عناصر بھٹو کی بیٹی سے خوفزدہ تھے اور ان کی پارٹی کو ختم کرنے کے درپہ تھے ان ہی چیرہ دستوں کی وجہ سے1997ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا 15 اپریل1999ء کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں نواز شریف حکومت کے قائم کردہ مقدمات میں پانچ سال کی سزا سنائی اس وقت وہ دبئی میں مقیم تھیں

اس لئے ان سزائوں سے محفوظ رہیں مخالفین یہ ہی چاہتے تھے کہ وہ ملکی سیاست سے دور رہیںلیکن وہ بہادر باپ کی بہادر بیٹی تھی شہیدو ں کی وارث تھی بھلا کس طرح ان سازشی اوچھے ہتھکنڈوں سے ڈر جاتی 2002ء کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان پیپلزپارٹی پارلیمنٹیرینز کے نام سے انتخابات میں حصہ لیا اور ملک میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے تاہم چونکہ ان کی پارٹی کی نشستوں کی

تعداد، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی نشستوں سے کم تھی، اس لئے انہوں نے حزب اختلاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کیامحترمہ بے نظیر بھٹو اس دوران مستقل دبئی میں ہی مقیم رہیں۔ 14 مئی 2006ء کو انہوں نے ملک میں آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لئے اپنے سیاسی حریف میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ملک و قوم کے وسیع مفاد میں میثاق جمہوریت کے معاہدے پر دستخط کئے
18 اکتوبر 2007ء کو وہ آٹھ برس بعد وطن واپس لوٹیں مگر مشکلات تھی کی کٹنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی،

ان کی وطن واپسی پر بھٹوکے متوالے جیالے پھولے نہیں سمارہے تھے لاکھوں کا مجمع اپنی عظیم لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے سڑکوں پر امنڈ آیاتھاقافلہ کراچی ائیرپورٹ سے براستہ کارساز گزررہاتھا، اس دوران ان کے جلوس پر ایک خودکش حملہ ہوا اس دھماکے سے لوگ دور نہیں بھاگے بلکہ محترمہ کی گاڑی کے اور قریب آگئے وہ موت سے ڈرنے کی بجائے وہ اپنے عظیم لیڈر کو خیروعافیت دیکھنا چاہتے تھے

اور یہ ہی وجہ تھی کہ دوسرے دھماکے سے جانی نقصان پہلے دھماکے سے کہیں زیادہ ہوا ،لاشوں کے بیچوں بیچ زخمیوں کی یہ آوازیں سب نے سنی کہـ” بی بی سلامت ہے نا انہیں کچھ ہوا تو نہیں ” کارکنوں اور لیڈر کے درمیان محبت کا یہ دیوانہ پن تاریخ کے سینے پر نقش ہوگیا،اس دھماکے میں کئی جیالے ایسے بھی شہید ہوئے جن کی شناخت کرنا بھی مشکل ہوگیا تھا یہ وہ جیالے تھے جنھوں نے اپنی ہستی کو مٹادیا تھا، لیکن دشمن تہیہ کرچکاتھا کہ وہ محترمہ بے نظیر کو ایک پل بھی سکون نہ لینے دے گا
27 دسمبر 2007 کو بینظیر بھٹو نے راولپنڈی کے مشہور لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے دوران کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے لیے جونہی گاڑی سے سر باہر نکالا تو پہلے سے ہی گھات لگائے مردود قاتل نے گولی چلا دی اور یوں دختر مشرق ہمیشہ کے لیے ابدی نیند سو گئیںتھیں۔ اگلے روز انہیں آہوں اور سسکیوں میں ان کے والد اور بھائیوں کے پہلو میں گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ میں سپردخاک کردیا گیا

۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت سنبھال لی اور محترمہ کے شوہر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئرمین بن گئے کہتے ہیں کہ شہید کبھی نہیں مرتا یہ ہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیر کو مٹانے والوں کو شاید ہی کوئی جانتاہومگر ان عظیم لیڈر وںکی یاد ہر گزرتے دن کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں پروان چڑھ رہی ہے بے نظیر بھٹو کے یوم شہادت پر نہ صرف گڑھی خدا بخش بلکہ دنیا بھر میں جمہوریت پسند افراد ادارے مناتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں