ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 36

دہشت گردی اور مذاکرات نہیں چلیں گے!

دہشت گردی اور مذاکرات نہیں چلیں گے!

پاکستان میں دہشت گردی پھر سے سر اٹھا رہی ہے،اس دہشت گردی کے سدباب میں ریاستی ادرے خاصے متحرک ہیں ،لیکن ملک میں جاری سیاسی ومعاشی عدم استحکام کو بھی دہشت گردی کے خاتمے میں بڑی رکاوٹ سمجھا جارہا ہے، یہ سارے حالات پریشان کن اورحکومت و ریاست کے لئے ایک بڑے چیلنج کا باعث ہیں،اس کا تقاضا ہے کہ ساری قیادت تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے

ماضی کی طرح اب بھی سر اٹھاتی دہشت گردی کا سر کچلنے کے لئے متحد ہوجائیں اور متفقہ طور پر کوئی ایسا لائحہ عمل مرتب کریں کہ جس کے بعد دہشت گردی کے مکمل سدباب تک پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ لائی جاسکے ،ملک کی سیاسی واداراتی قیادت جب تک متفقہ پا لیسی پر عمل پیراں نہیں ہوں گے ،ملک میں ایک بار پھر سر اُٹھاتی دہشت گردی کا سد باب ممکن دکھائی نہیں دیتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ پاکستان عرصہ داراز سے دہشت گردی، فرقہ واریت اور خانہ جنگی کے کڑے مراحل سے گزرتارہاہے،

اس دوران ایک بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ کسی بھی گروہ یا تنظیم کو اس وقت تک کارروائی کی جرأت نہیں ہوتی ہے کہ جب تک ریاستی اداروں اور سول سوسائٹی کے اندر ان کے لئے ہمدردی نہ پائی جائے،یہ ہمدردی گروہی یا انفرادی بھی ہو سکتی ہے، اس کے ساتھ دہشت گردی پر قابو پانے میں ناکامی کی بڑی وجہ سامنے آئی ہے، وہ ریاستی اداروں اور حکومت کی غیر متوازن پالیسی ہے، حکومت کسی نہ کسی مصلحت کی وجہ سے ایک پالیسی اپنانے میں ناکام رہی ہے ،اس کی وجہ سے کبھی سختی اور کبھی نرمی برتی جاتی رہی ہے،ہر بار فوجی آپریشن کے بعد دہشت گردوں کے ساتھ بار بار کیے جانے والے مذاکرات اور معاہدوں کی وجہ سے ہی ان گروہوں کو سنبھلنے کا بار بارموقع ملتا رہا ہے۔
اس صورتحال میںپاکستان کے دفاعی امور کے ماہر اور خاص طور پر دہشت گردی سے نپٹنے کا تجربہ رکھنے والے لوگ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ ریاست کسی دوسری ریاست سے تو مذاکرات کر سکتی ہے، مگر اپنے ملک کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد سے مذاکرات کس قانون اور آئین کے تحت کیے جاتے ہیں؟ ریاستیں اپنے مجرموں سے مذاکرات اور معاہدے نہیں کیا کرتیں ،بلکہ ان کو پکڑ کر قانون کے تحت سزا دلواتی ہیں،اتحادی حکومت نے دیر سے ہی سہی ،مگر اب فیصلہ کرلیا ہے

کہ کسی دہشت گرد تنظیم سے مذاکرات کر نے کے بجائے افغان حکومت سے بات چیت کی جائے گی ، کیو نکہ افغان حکومت نے پا کستان سمیت ساری دنیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سر زمین کسی دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے ،اگر اس پر عمل درآمد ہوتا ہے تو پاکستان سمیت ساری دنیا دہشت گردی سے محفوظ ہو جائے گی ۔
پا کستان بار ہا افغان حکومت کو اپنا وعدہ یاد دلاچکا ہے ،لیکن افغان حکومت اپنا وعدہ پورا کر نے کے بجائے ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے ،اس کے باعث پا کستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان تعلقات پیچیدگی اختیار کرتے جارہے ہیں ،تحریک انصاف حکومت نے دہشت گردی کے سد باب کیلئے افغان حکومت کی ثالثی میں ٹی ٹی پی سے سر کاری سطح پر مزاکرات بھی کیے تھے ،یہ مذاکرات پا کستان میں حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی جاری رہے ،لیکن معاملات عارضی جنگ بندی سے زیادہ آگے نہیں بڑھ سکے ہیں

،ٹی ٹی پی نے جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان کے بعد سے پا کستان میں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں میں اضافہ کردیا ہے ،اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے پا کستان حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر افغان طالبان کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی نہیں کرتے تو پا کستان ان کے خلاف خود کاروائی کرے گا۔اس وقت ایک طرف ملک میں سیاسی ومعاشی بحران ہے تو دوسری جانب دہشت گردحملوں میں اضافہ ہوتا جارہا
ہے ،گزشتہ بدھ کے روز خانیوال میں حساس ادارے کے دو افسران کو نشانہ بنایا گیا ہے ،اس کی ذمہ داری بھی لشکرخراسان نامی دہشت گرد تنظیم نے قبول کی ہے ،ملک دشمن عناصرکے خلاف جہاں سخت کاروائی ضروری ہے ،وہیں افغان حکومت کو بھی اعتماد میںلینے کی ضرورت ہے ، پا کستان کودہشت گردوں کے ٹھکانوں سے متعلق معلومات دیے کر ان خلاف کاروائی کا مطالبہ کر نا چاہئے ،اگر وہ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیتے تو پا کستان کو مجبوراََ خود کاروائی کرنا پڑے گی ،پا کستان فورسز کب تک افغان طالبان کی جانب سے کاروائی کا انتظار کرتے رہیں گے اور اپنے جوانوں کا ناحق خون بہتا دیکھتے رہیں گے ۔
افغان حکومت کی مجبوریاں اور مصلحت اپنی جگہ ،مگر افغان حکومت کو یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ معصوم انسانوں کا نا حق خون بہانے والے عناصر خود ان کیلئے بھی انتہائی خطرناک ہیں ،ٹی ٹی پی جہاں پا کستان میں دہشت گردی کررہی ہے ،وہیں اس کے نظریئے پر کار بند داعش افغان عوام کو بھی خون نا حق میں نہلا رہی ہے

،اس لئے دہشت گردی اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چلیں گے،افغان طالبان کو دہشت گرد عناصر کے خلاف کسی قسم کی لچک کا مظاہرہ نہیں کر نا چاہئے ،اس میں دونوں ممالک کا مشترکہ مفاد ہے اور اس مفاد کے پیش نظر دونوں ممالک مل کر خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے ساتھ قیام امن قائم کرنے میں کا میاب ہو سکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں