61

”ادب کیا ہے”

”ادب کیا ہے”

تحریر: اعجاز الرحمان
ادب عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی تمیز، تہذیب اور احترام کے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تخلیقیت کا عنصر بھی شامل ہوگیا۔ جس کا سسبب ادب کا دائرہ وسیع ہوگیا۔ ادب میں شاعری، ڈراما، داستان، ناول، افسانہ اور انشائیہ وغیرہ شامل ہے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ ادب کا آغاز شاعری سے ہوا۔

پہلے معلوم شاعر کا نام ہومر ہے۔ ہیگل ادب کو دیگر شاخوں پر فوقیت دیتا ہے۔ کیونکہ ادب فنون لطیفہ کی ایسی شاخ ہے۔ جس میں مادی اشیاء کا استعمال نہیں ہوتا۔ جس طرح دیگر فنون میں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر فن تعمیر کے لئے اینث، پتھر اور ریت وغیرہ کا استعمال ہوتا ہے۔ یہ مادی اشیاء قاری کی توجہ اپنی طرف مرکوز کر لیتی ہیں اور قاری بآسانی فنکار کے افکارو خیالات تک نہیں پہنچ پاتا۔

ڈاکٹر جمیل جالبی بھی ادب کو دوسرے فنون پر ترجیح دیتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ”لفظ چونکہ دوسرے میڈیم سے زیادہ طاقتور چیز ہے۔ اسی لئے ادب دوسرے فنون لطیفہ سے زیادہ موثر چیز ہے۔”
(کتاب: ادب کلچر اور مسائل / ڈاکٹر جمیل جالبی)

ادب میں ادیب یا تخلیق کار حواس خمسہ کی مدد سے خارج کا مشاہدہ کرتا ہے۔ ان میں اپنے جذبات و احساسات، خیالات و افکار کو سمو کر ایک نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ پھر بہترین لفظوں کسی خاص ہیت میں ترتیب سے سپرد قلم کرتا ہے۔ادیب ایسی زبان کا استعمال کرتا ہے۔ جس پر اسے عبور حاصل ہو۔
ڈاکٹر اطہر پرویز لکھتے ہیں کہ ”کوئی شخص ایسی زبان کا ادیب نہیں ہو سکتا جو اس زبان کے نشیب و فراز سے واقف نہ ہو، اور اس زبان کے الفاظ سے اس کا زندہ اور متحرک رشتہ نہ ہو اور زبان میں سوتے سوتے اچانک اٹھ کر پانی نہ مانگ سکے یا بے تکلف کسی سے وقت معلوم کر سکے۔”
(کتاب: ادب کسے کہتے ہیں/اطہر پرویز)

ادیب اپنی تحریر کو موثر یا دلنشنین بنانے کے لئے ضروت پڑنے پر تشبیہات، استعارات اور تلمیحات کا سہارا لیتا ہے۔ اس طرح نہ صرف کلام میں حسن پیدا ہوتا ہے، بلکہ سننے یا پڑھنے والے پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فرانسی زبان میں ادبی تخلیقات کے لئے (BELLES-LETTERS) کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔

جس کے معنی ہیں خوبصورت یا عمدہ تحریریں۔ ادیب اپنے جذبات و احساسات کی شدت کو بیان کرنے کے لئے مبالغہ آمیزی سے بھی کام لیتا ہے۔ مبالغہ آمیزی کے معنی ہیں بڑھا چڑھا کر بیان کرنا۔ مبالغہ آمیزی سے قاری ادیب کے جذبات کی شدت کو بآسانی محسوس کرلیتا ہے۔ بسا اوقات خارج داخل پر یا داخل خارج پر حاوی ہو جاتا ہے۔ بہترین ادب وہ ہے جس میں دونوں کا امتزاج ہو۔ ژال پال سارتر لکھتا ہے کہ ”بات کہنے کے ڈھنگ کا انتخاب ہی کسی کو ادیب بناتا ہے”
(کتاب: تنقیدی نظریات اور اصطلاحات/ڈاکٹر انور جمال)

ماحول بھی ادب پر بہت گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ کیونکہ ادیب اپنے ماحول سے منسسلک ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب پڑھنے سے نہ ہم صرف لطف حاصل کرتے ہیں بلکہ اس سماج کے تہذیب و تمدن سے بھی آشنا ہو جاتے ہیں۔ ادیب صرف خارج کو ہی بیان نہیں کرتا بلکہ روحوں میں اتر کر ان کے جذبات کو بیان کرتا ہے۔
عہد حاضر ادیب و شاعر سعید سادہو لکھتے ہیں کہ ”جسم کو کپڑا پہنانا درزی کا کام ہے روحوں کو بر ہنہ کرنا اور اتیت سچ کھود لانا تخلیق کار کا کام ہے۔۔۔۔”

دراصل زخم دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو خارج پر لگتے ہیں اور جبکہ دوسرا اس کے برعکس داخل یعنی روح پر کسی واقعہ یا حادثہ کی وجہ سے نقش کر جاتے ہیں۔ خارج پہ لگا زخم وقت کے ساتھ ساتھ بھر جاتا ہے لیکن روح پر لگا زخم انسان کو اندر سے ختم کردیتا ہے۔ جیسے دیمک لکڑی کو۔

آئیے! اس کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم آئے روز ایسے دردناک واقعات سنتے ہیں کہ ایک بیوہ عورت نے غربت کے سبب اپنے بچوں کو قتل کردیا اور خودکشی کرلی۔ ایک صحافی فقط نقالی کرتا ہے۔ ہمیں موت کا سبب غربت بتاتا ہے۔ جبکہ ایک ادیب اس شخص کی روح میں اتر کر، اس سبب کے بھی اسباب تلاش کرتا ہے جو موت کا کارن بنے۔ اب نتائج پہلے سے مختلف ہوں گے۔

مثال کے طور پر؛ ہمارے سماج نے ایک اپاہج عورت کو جنم دیا جس کے ہاتھ پاؤں ہوتے ہوئے بھی وہ اپنا اور بچوں کا پیٹ نہ پال سکی۔ یہاں ہمارے سماج اور حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم و تربیت پر زور کیوں نہیں دیتے؟

دراصل تخلیق کار انسانی احساسات و جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ فنکار اور کاریگر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ کاریگر خارج کی ہو بہو نقل کرتا ہے۔ جبکہ فنکار خارج کے اثرات کو اپنے قوت متخیلہ کی مدد سے نئے سانچے میں ڈھال دیتا ہے۔ یعنی بے جان چیز میں روح پھونک دیتا ہے۔

ادب کے بارے میں کسی ایک تعریف سے اتفاق کرنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں مثلاً کارڈ ڈینل نیومین کہتا ہے کہ ”زبان اور الفاظ کے ذریعے انسانی افکار وخیالات اور محسوسات کا اظہار ادب کہلاتا ہے ”
(کتاب: ادبی اصطلاحات / ڈاکٹر اشرف کمال)

کیا فقط خیالات اور جذبات کا اظہار ادب ہے۔ خواہ اس کا اظہار بے ترتیب ہو، اس کی کوئی خاص ہیت نہ ہو، اس میں کوئی حسن نہ ہو۔ کیا ایسے اظہار کو ادب کہنا درست ہے ہرگز نہیں۔ بعض کا کہنا ہے ادب وہ ہے جس میں روزمرہ سے بہتر زبان استعمال ہو اور کوئی کہتا ہے کہ تخلیق کار ک کام روحوں کو برہنہ کرنا، یعنی داخل کے راز کو فاش کرنا۔ کیا فقط روحوں کو برہنہ کرنے سے تخلیق کار کے فن کو ادب کہنا درست ہے یا روزمرہ سے بہتر زبان میں لکھنے سے ادب خلق ہو جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی تحریریں ادب کے خانے میں شمار نہ ہوں گی۔

دراصل ہم ان تمام تعریفوں کو الگ الگ کر کے دیکھ رہے ہیں۔اور کسی ایک تعریف سے پورے ادب کا احاطہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ایسا کرنے سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اگر غور و فکر کیا جائے تو یہ تمام افراد اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔

ان تمام افراد نے ادب کے کسی ایک خاص جز کی تعریف کی ہے۔ یعنی ان کی تعریف پورے ادب کا احاطہ نہیں کرتی۔ لہذا ہمیں ان تمام تعریفوں کو یکساں کر کے مجموعی سطح پر دیکھنا ہوگا۔ تبھی ہم پر واضح ہوگا کہ ادب کیا ہے۔ ان تمام تعریفوں کو یکساں کر کے ہی ہم کسی خاص نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں اور ادب کو معنی و مفہوم کو بآسانی سمجھ سکتے ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں