ملک بھر میں ایک جانب اپوزیشن ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا اس قدر شور کررہی ہے کہ حکومتی حلقوں اور غیر جانبدار لوگوں 45

سیاسی بحران میں قیادت کا امتحان !

سیاسی بحران میں قیادت کا امتحان !

ملک میں سیاسی بحران کی شدت مسلسل بڑھتی ہی جارہی ہے،ایک طرف پنجاب اور خیبر پختونخوا صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ہے تو دوسری جانب سیاسی قیادت کی ضد واَنا سیاسی عدم استحکام بڑھا ئے جارہی ہے ، ایک ایسے وقت میں جبکہ معاشی بحالی کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے،

آئندہ عام انتخابات سے محض چند ماہ پہلے ملک کی مجموعی آبادی کے دو تہائی پر مشتمل دو صوبوں کی اسمبلیوں کا ٹوٹ جانا ، ان میں نگراں حکومتوں کا قیام عمل میں لایا جانا اور تین ماہ میں نئے انتخابات کا منعقد کرایا جانا، ملک بھر میںسیاسی ہلچل اور بے یقینی کی فضا میں مزید اضافہ ہی نہیں کرے گا،بلکہ سیاسی قیادت کیلئے ایک بڑا امتحان بھی ثابت ہو گا۔اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی انتہائی ضرورت ہے ،ملک میں سیاسی استحکام ہو گا تو ہی معاشی استحکام کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے

،پی ٹی آئی قیادت کا ماننا ہے کہ نئے انتخابات سے سیاسی استحکام آجائے گا ،کیو نکہ انتخابات کے نتیجے میں آنے والی حکومت کے پاس پانچ برس کا مینڈیٹ ہو گا ، درپش مسائل کے تدارک کا عزم ہو گا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے وسائل بھی بروئے کار لائے جاسکیں گے ،یہ تصور اصولی طور پر درست ہے ،مگر عام انتخابات کے بعد کے ماحول کو مثبت و مستحکم بنانے کیلئے انتخابات سے قبل ہی کسی سطح پر اتفاق رائے قائم کرلیا جائے

تو یہ سب زیادہ بہتر ہو گا ،کیو نکہ سیاسی بے یقینی کے ماحول میں ہونے والے انتخابات بھی شائد ان مسائل کا حل فراہم نہ کر سکیں گے کہ جن کیلئے قبل از وقت انتخابات کو ضروری مانا جارہا ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت ساری ہی سیاسی جماعتیںاعتماد کے شدید بحران سے دوچار ہیں ،اور بظاہر کو بھی ایسی گرئونڈ تیار کرنے میں کامیاب نہیںہو پارہا ہے کہ جہاں پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جاسکے ،

ایک طرف سیاسی قیادت کے درمیان مذاکراتی عمل کا فقدان ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی اپنی دونوصوبائی اسمبلیاں تحلیل کررہی ہے ،پنجاب اسمبلی تحلیل ہو ہچکی ہے اور خیبر پختونخوا تحلیل ہو نے جارہی ہے ،اس صورتحال کے جو بھی نتائج ہوں گے ،مگر ایک بات طے ہے کہ سیاسی انتشار میں مزید اضافہ ہی ہو گا اور اس کے نتیجے میں آنے والے عام انتخابات انتہائی ہنگامہ خیز ہو جائیں گے،ملک کی سیاست میں بے چینی اور ہنگامہ خیزی نہیں ہونے چاہئے ،سیاسی فریق کو کوشش کرنی چاہئے کہ موجودہ دور کے سیاسی طوفان کی گرد سے آنے والا دور متاثر نہ ہو پائے ،یہ صورت ہی ملک کو ایک ایسا سیاسی استحکام دے سکتی ہے کہ جس کی شدت سے ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ اس وقت سیاسی حلقوں میں کو بھی ایسی قد آور شخصیت دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،جو کہ قومی مفاد کی خاطر سیاسی مفاہمت یقینی بنا سکے ،صدر عارف علوی نے اپنی تائیں مفاہمتی کائوشیں کی جاتی رہی ہیں ،مگر ان کائوشوں کے کوئی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوپائے ہیں ،اس کے بعد سے سیاسی قیادت کو مفاہمت کابیڑا خود ہی اُٹھانا ہے ،اب دیکھنا ہے کہ سیاسی قیادت کس درجے کی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتی ہے اور افہمام تفہیم کا کوئی راستہ نکالتے ہوئے موجودہ دور کے سیاسی انتشار کا قصہ یہیں تمام کرتی ہے کہ اس کے اثرات و باقیات آگے لے کر جاتی ہے۔
ملک میں صوبائی اسمبلیوںکی تحلیل کے بعد سے سیاسی بحران کے سنگین نتائج کی طرف اشارہ کررہا ہے، اس بدتر ہوتی سیاسی صورتحال میں حکومت اور حزب اختلاف کیا ایسا نیا کردار اداکرتے ہیں کہ جو حالات کی بہتری کی طرف لے جاسکے،کیونکہ اس وقت سیاسی سطح پرجو بداعتمادی و محاز آرائی شدت اختیار کرتی جارہی ہے ،اس میں سیاسی فریق کے مابین سیاسی مکالمے کی صورت دکھائی نہیں دیے رہی ہے،

سیاسی جماعتوں میں ایک دوسرے کی قبولیت کا نہ ہونا اور ایک میز پر نہ بیٹھنا ہی سیاسی بحران کو اور زیادہ بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے ،اس پر صدر کی جانب سے وزیر اعظم کو اعتماد کاووٹ لینے کیلئے کہنے کی باز گشت بھی سنائی دینے لگی ہے ،ایک دوسرے کو گراکر اور دیوار سے لگا کر عام انتخاب کی طرف بڑھتے ہوئے کیسے سیاسی بحران سے باہر نکلا جاسکے گا ، یہ سیاسی قیادت کیلئے کسی بڑے امتحان سے کم نہیں ہے ، اس امتحان میں کا میابی سے ہمکنار ہو کرہی سیاسی و معاشی استحکام کی جانب بڑھا جاسکتا ہے،یہ انتہائی مشکل ضرور ،مگر اب بھی ناممکن نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں