56

ہے کوئی عوام کی آواز سننے والا !

ہے کوئی عوام کی آواز سننے والا !

ملک میںہر آنے والا دن عوام کے مسائل و مشکلات کے بڑھنے کی نویدسنا رہا ہے،جبکہ وزیر ، خزانہ ایک ہی بات دہرائے جارہے ہیںکہ پاکستان کی معاشی صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہے، ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں، مالی حالات پہلے سے بہتر ہیں، لیکن زمینی حقائق ان بیانات کی بالکل نفی کر رہے ہیں،حکومت نے بڑھتی مہنگائی میں عوام کو رلیف دینے کے بجائے آئی ایم ایف کی شرائط مانتے اور لاگو کرتے کرتے عوام کابھرکس نکال دیا ہے،اس کے باوجود آئی ایم ایف سے قرضہ ملا نہ کہیں سے ڈالرزآئے ہیں، البتہ حکمران قیادت نے اپنے خلاف مقدمات کا خاتمہ ضرور کروالیا ہے

، اس حکومت کے برسرِاقتدار آنے کا مقصدایک ہی تھا کہ اپنے کیسز کلیئر کروا لیں،بے شک ملک کا کباڑہ ہی ہو جائے ،ریاست پر سیاست قربان کرنے والوں سے کوئی ایک بار پو چھے کہ انہوں نے ملک وقوم کو دیاہی کیا ہے؟ملک دیوالیہ اور عوام بدحال ہیں ،جبکہ حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
یہ حقیقت واضح ہوتی جا رہی ہے کہ حکمران اتحاد ملک چلانے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی طویل کا بینہ تمام تر دعوئوں کے باوجود آئے روز بگڑتے معاملات سلجھا نہیں پائے ہیں، لیکن عوام کو اصل صورتِ حال سے آگاہ کرنے کے بجائے گمراہ کن بیانات کے ذریعے اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں، جبکہ اصل صورتِ حال یہ ہے کہ ملک بھر میں کوئی ایسا طبقہ زندگی نہیں ہے

، جو کہ موجودہ سیاسی و معاشی حالات سے بری طرح متاثر نہیں ہورہا ہے،عام آدمی کے ساتھ کاروباری حضرات بھی رورہے ہیں، عوام میں روزمرہ استعمال کی اشیا کی خریداری کی سکت نہیںرہی ہے تو کاروبار کس طرح چل سکتے ہیں؟
یہ انتہائی عجیب صورتحال ہے کہ کاروباری طبقہ بھی رورہاہے اور لاچار و بے کس غریب عوام بھی ہاتھ اُٹھائے آہو بکا کرتے نظر آتے ہیں، لیکن سیاستدان اپنی گندی سیاست کا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آرہے ہیں ،ایک دوسرے کو گرانے اور اقتدار کی کرسی پر جائزوناجائز قبضہ کرنے کی سیاسی جنگ لڑی جارہی ہے

،اس سیاسی گھمسان کے رَن میں بھلا عوام کیلئے کون سوچ سکتا ہے؟ عوام توصرف ووٹ ڈالنے کیلئے کارآمد ہوتے ہیں، اس کے علاوہ سیاسی قیادت کی نظر میں عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، عوام سیاسی مقاصد کیلئے کل استعمال ہوتے رہے ،عوام آج بھی سیاسی مفادات کیلئے استعمال ہو رہے ہیں، عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور آگے کیاہونے والا ہے؟
حکمران اتحاد کب تک عوام کو چھوٹے وعدئوں اور دلاسوں کی بتی کے پیچھے لگائے رکھیں گے ، کیاحکومت کے پاس معیشت کو بہتر کرنے اور موجودہ بحران سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ ہے؟ کیا ان کی ترجیحات میں سارے معاملات شامل ہیں یا اْس کی ساری توجہ عمران خان کی بدلتی چالوں پرہی مرکوز ہے،

یہ مانگے تانگے کے ڈالروں سے معیشت درست ہونی والی ہے نہ آئے روز بڑھتی مہنگائی میں کوئی کمی آئے گی، اگر موجودہ حکومت کے کار پردازان سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے گا اور اچانک ایک دن ملک سے بدحالی اور مہنگائی ختم ہو جائے گی اور وہ فخریہ انداز سے عوام کے سامنے جا سکیں گے تو یہ اْن کی خام خیالی ہے، موجودہ اقتصادی بحران کئی برسوں تک ملک کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں ہے، اِس لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لایا جائے اور مستقبل میں کس کی حکومت بنتی ہے، اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ کر آگے بڑھا جائے، یہ کرنے کا اصل کام ہے

، مگر افسوس اس طرف حکمران اتحاد توجہ دینے کو تیار ہی نہیں ہے ، وہ عوامکی عدالت میں جانے کے بجائے عوام محض مصنوعی خوشخبریاں سناکر بہلائے جار ہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز سرجوڑ کر بیٹھیں، کیونکہ کسی فردِ واحد یا محض حکمران طبقے کا معاملہ نہیں، پوری قوم کا اجتماعی مسئلہ ہے ،لہٰذا ملک اور قوم کے وسیع تر مفاد میں آپس کی محاذ آرائی چھوڑ کر ملک بچانے کی فکر کی جائے اور قومی وقار اور بقاء کی خاطر ذاتی مفادات کی قربانی دی جائے،

کیو نکہ عوام قربانیاں دیتے تنگ آچکے ہیں، عوام کو اب آئی ایم ایف سے غرض ہے نہ قرضوں کے حصول سے نہ سرکاری افسران کی نمایشی کٹوتی سے اور نہ ہی کفایت شعاری کے فرضی حکومتی اعلانات سے کوئی فرق پڑتا ہے، عوام کو بڑھتی مہنگائی میں کمی اوراشیائے ضروریہ کی طلب ہے،عوام روز بروز اپنی عذاب ہوتی زندگی سے تنگ آچکے ہیں ، عوام سراپہ احتجاج ہیں اور آہو بکا کررہے ہیں ، ہے

کوئی عوام کی آواز سننے والا، اگراب بھی حکمرانوں نے عوام کی آواز نہ سنی تو پھر عوام بھی ان کی ایک نہیں سنیں گے، یہ وقت انتہائی قریب آتا جارہا ہے کہ جب عوام کی نفرت اور غم و غصہ حاکموں کے محلات سے ٹکرا کے انھیں زمیں بوس کردے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں