94

باتونی

باتونی

مہک شہزادی محمد طارق سیالکوٹ

احمد اور مومنہ ایک ہی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔پہلے تو مومنہ کو احمد اچھا نہیں لگتا تھا لیکن پھر ان کی دوستی ہو گئی۔ان کی دوستی پوری یونیورسٹی میں مشہور تھی کیونکہ یہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر پوری یونیورسٹی گھوما کرتے تھے۔اس دوستی کو محبت میں بدلنے میں زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔

جب ان کی پڑھائی مکمل ہوئی تو دونوں نوکری کی تلاش میں جگہ جگہ جانے لگے۔ان کو ایک بینک میں نوکری مل گئی وہاں بھی وہ دونوں ساتھ ہی رہے۔ احمد کی دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔سب کی شادیاں ہو چکی تھی۔احمد سب سے چھوٹا تھا۔احمد کے بڑے بھائی ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ان کی ایک بیٹی گڑیا جو کے پانچ سال کی تھی۔احمد کی امی اب احمد کا رشتہ ڈھونڈ رہی تھی۔لیکن اس بات کا احمد کو پتا نہیں تھا۔

ایک دن اس کی امی بات کر رہی تھی کہ مجھے احمد کے لیے ایک لڑکی پسند آ گئی ہے جلد ہی رشتہ لے کر جائیں گے۔احمد کے بڑے بھائی نے کہا جس دن آپ کہیں گی اس دن چلے جائیں گے۔احمد نے یہ بات سنی تو غصے میں آ گیا کہ میری شادی ہے اور مجھ سے کسی نے پوچھا بھی نہیں۔احمد نے غصے سے کہا کہ میں نے اپنی پسند کی شادی کرنی ہے اور زور سے دروازہ بند کر کے باہر چلا گیا۔ احمد کی امی کو غصہ آیا

تو اس کے بڑے بھائی نے کہا امی جان آپ غصہ نا کریں میں اس کو سمجھاؤں گا۔رات کو جب احمد گھر آیا تو اس کے بڑے بھائی نے اسے سمجھایا لیکن اس نے کہا کہ اس نے پسند کی شادی ہی کرنی ہے۔اس کی امی اور بھائی کو اس کی بات ماننا ہی پڑی۔ انہوں نے پوچھا جس لڑکی کو تم پسند کرتے ہو وہ لڑکی کون ہے تو احمد نے مومنہ کا بتا دیا۔ اب احمد کی امی بھی اپنی ضد پر تھی کہ آج ہی وہ لڑکی کو دیکھنے جائیں گے۔

رات ہوئی تو وہ سب مومنہ کے گھر گئے۔پہلے تو مومنہ بہت حیران ہوئی لیکن خوش بھی تھی کہ احمد نے اپنے گھر والوں کو بھیج دیا۔مومنہ کی امی احمد کو جانتی تھی اسی لیے انہوں نے بھی ہاں کر دی۔احمد کی امی گھر آ کر کہنے لگی کہ احمد جو میں نے تمہارے لیے لڑکی دیکھی تھی وہ زیادہ پیاری تھی۔احمد کے بڑے بھائی نے امی کو سمجھایا کہ اب وہ ایسا نا کہیں۔احمد کی امی نے بھی ضد رکھی کہ وہ جلدی شادی کریں گی۔

ان کے گھر میں شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں کیوں کہ احمد کی امی نے ایک مہینے کے بعد شادی کرنے کا کہا تھا۔احمد کے بھائی کی بیٹی جو بہت چھوٹی اور تیز بھی بہت تھی۔اسے کوئی پوچھتا تھا کہ گھر میں کیا بات ہوئی ہے وہ سچ اور سیدھی سیدھی بات بتا دیتی تھی۔کیوں کہ ابھی اسے بات بڑی یا چھوٹی کرنا نہیں آتا تھا۔اس لیے گھر والے اس کے سامنے زیادہ باتیں نہیں کرتے تھے۔اس کی ماما شادی کی شاپنگ کر رہی تھی

اس لیے گڑیا اپنی دادی امی کے پاس گھر ہی رہتی تھی۔گڑیا بہت باتیں کرتی تھی۔ایک دن گڑیا کی دادی امی نے گھر پینٹ کرنے والے کو پوچھا کہ جب فری ہو گے ہمارے گھر پینٹ کر دینا۔پینٹ کرنے والا ان کی گلی میں ہی رہتا تھا۔اس نے کہا میں تو آج فارغ ہوں کیوں نا آج ہی کر دوں۔گڑیا کی دادی امی نے کہا کہ آج تو گھر کوئی نہیں اس نے کہا کوئی بات نہیں میں سامان کو بھی کر لوں گا۔اب گھر میں گڑیا اور اس کی دادی امی تھی۔

گڑیا کی دادی امی کے دل میں خیال آیا کہ یہ نا ہو کہ کوئی چیز اٹھا کر لے جا? کیونکہ سامان بکھرا ہوا تھا۔انہوں نے گڑیا سے کہا جاؤ پینٹ والے انکل کا دھیان رکھو یہ نا ہو کوئی چیز چوری کر لیں۔گڑیا وہاں جا کر کھڑی ہو گئی گڑیا کیوں کہ بہت باتیں کرتی تھی وہاں چپ رہ کر تھک گئی تھی۔پینٹ والا اپنا کام کر رہا تھا تو گڑیا نے بات کی شروعات کی۔انکل آپ کو پتا ہے میں یہاں کیوں کھڑی ہو۔پینٹ والے نے معصوم سے چہرے کو دیکھا

اور کہا نہیں بیٹا مجھے نہیں پتا۔گڑیا نے معصوم سے چہرے سے کہا انکل آپ چوری نا کر لیں اس لیے میں یہاں کھڑی ہوں پینٹ والے نے حیران ہو کر دیکھا اور مسکرا کر کہا اچھا تو آپ میرا دھیان رکھ رہی ہے۔گڑیا نے کہا جی انکل میں دھیان رکھ رہی ہوں۔اب شادی کے دن قریب تھے۔گڑیا کی پھوپھو بھی آ گئی تھی۔گڑیا کی دادی امی باہر گئی تو ایک عورت راستے میں ملی تو اس نے پوچھا لڑکے کی شادی کہاں کر رہی ہو؟
تو گڑیا کی دادی امی بیٹھ گئی اور باتیں کرنے لگیں۔گڑیا دکان پر چیز لینے جا رہی تھی کہ اس نے دیکھا کہ اس کی دادی امی باتیں کر رہی ہے تو سائیڈ پر رک کر سننے لگی۔باتیں سننے کے بعد چیز لے کر گھر چلی گئی۔اگلے دن مہندی تھی گڑیا بہت خوش تھی کیوں کہ اس کے چاچو کی شادی تھی۔سب اس سے پیار کرتے تھے

اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں سب کو ہی پسند تھیں۔برات والے دن گڑیا پھولوں والی گاڑی میں اپنے چاچو کے ساتھ بیٹھ کر بہت خوش تھی۔نکاح ہونے کے بعد سب گھر والے تصویریں بنانے لگے۔گڑیا کی پھوپھو نے پوچھا گڑیا آپ کی چچی کیسی ہے تو گڑیا نے کہا دادی امی کے مطابق چچی کالی ہیں لیکن مجھے تو بہت پیاری لگ رہی ہے۔یہ بات سن کر سب حیران ہو گئے اور گڑیا کی دادی امی سوچنے لگیں

کہ اس کمبخت کو میں نے کب کہا ہے کہ چچی کالی ہے۔اور باقی سب ہنسنے لگے۔یہاں تک گڑیا کے چاچو اور چچی بھی ہنسنے لگی۔ وقت گزرتا گیا گڑیا بھی بڑی ہو گئی۔جب بھی شادی کی بات ہوتی تو ان کو گڑیا کی بات یاد آ جاتی اور سب ہنسنے لگتے گڑیا بھی خوش ہوتی لیکن شرمندہ بھی ہوتی تھی۔اب گڑیا کی باتوں کی عادت ختم ہو چکی تھی۔اور اب نا ہی گڑیا کسی کی خامیاں نکالتی تھی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں