56

کتاب,نبیرہِ ذوق حسن وخیال کے آئینہ میں

کتاب,نبیرہِ ذوق حسن وخیال کے آئینہ میں

فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین! نبیرہِ ذوق معروف شاعر,ادیب اور مایہ ناز ہستی سرزمین لاہور میں پیدا ہونے والے نواب ناظم میو لاہور کے قلم کی شاہکار تصنیف ہے۔بحر سخن سے موتی تلاش کرنا اور موتیوں کو خوبصورت لڑی میں پرونا موصوف کی عظمت کی تصویر ہے۔نبیرہِ ذوق کی تصنیف کے پس منظر میں ایک خوب صورت داستان ہے

۔مصنف چونکہ ایک خود استاد رہے اس لیے استاد کی عظمت کو اپنی خوشنما کتاب کے آئینہ میں اتارنے کا مقصد اولین جانا۔نواب ناظم میو اس عظیم ہستی کا نام ہے جس نے لاہور تاریخی شہر میں آنکھ کھولی۔علم وتعلیم کے چراغ روشن کیے۔شعروسخن سے دلچسپی سے زندگی میں ایک خوشگوار تبدیلی رونما ہوئی۔موصوف اس وقت روزنامہ بارڈر لائن لاہور اور روزنامہ سسٹم لاہور کے چیف ایڈیٹر ہیں

۔ادبی خدمات قابل تعریف ہونے کے ساتھ ساتھ قیمتی سرمایہ بھی ہیں۔موصوف کی تصنیف پر تبصرہ لکھنا مجھ جیسے ناچیز انسان کے بس کی بات نہیں تاہم جتنی میری بساط ہے اتنی جسارت کرتا ہوں۔تھوڑی سی وضاحت کرتا چلوں نبیرہِ ذوق یعنی نواسہ ذوق۔۔آگے چل کر بات مزید دلچسپ ہو گی۔عرض کرتا چلوں اس تصنیف میں مصنف جناب نواب ناظم میو لاہور نے جو بزم سخن اردو کے درخشاں ستارے اور قلم کے شاہکار ہیں۔انسانیت درد سوز آرزو مندی کا درس دیتے ہیں اور احترام کا پیغام دیتے ہیں۔

کیونکہ یہ کتاب موصوف نے اپنے استاد کے احترام میں ہی لکھی ہے۔جس کا تبصرہ اور تذکرہ مقصود ہے۔موصوف محترم علامہ ذوقی ظفر مظفر نگری مرحوم کی زندگی اور شاعری پر مختصر تنقیدی,تحقیقی تصنیف کے ابتدائی نگارشات میں لکھتے ہیں۔۔۔وہی احساس کی جھیلوں میں پتھر پھینکنے آیا۔۔ محبت کے کنول جس کو دیے شام وسحر میں نے۔نبیرہِ ذوق محترم نواب ناظم میو صاحب کی اتنی شاندار تصنیف ہے

جس کی خوبصورتی کا معیار بہترین طرز نگارش ہے۔کتاب کے حرف آغاز میں ذوقی مظفر نگری کے حالات زندگی سے کیا گیا ہے۔یہ میری ناتمام سی کوشش ہے کہ نواب ناظم میو لاہور کی قلمی خدمات کا اعتراف کرنے والوں میں میرا نام بھی شامل ہو۔بات بڑی دلچسپ ہے کہ موصوف نے شاعری اور ادبی درس سکھانے والی ہستی جناب حافظ محمود الحسن صدیقی (تخلص ذوقی مظفر نگری)مظفر نگر اترپردیش بھارت میں 15 جنوری 1921ء کو پیدا ہو?۔ان کے والد کا نام محمد عمر صدیقی تھا۔دادا کانام پیر زادہ قاضی نورالحسن صدیقی اور پردادا کانام قاضی علی بخش صدیقی تھا۔ان کے والد صاحب حافظ قرآن اور اپنے وقت کے غوث اور صاحب کرامت تھے۔

ان کی والدہ محترمہ ہما انسا ملک الشعراء خاقان ہند استاد شہ شیخ محمد ابراہیم ذوق دہلوی آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے استاد کے بیٹے محمد اسماعیل فوق دہلوی کے بیٹے محمد شرف الدین کی بیٹی صغریٰ بیگم کی بیٹی تھیں۔ذوقی مظفر نگری نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر مظفر نگر میں پائی اور دینی و مذہبی تعلیم مدرسہ عربیہ جامعہ مسجد حوض والی میں حاصل کی۔استاد محترم عبدالعزیز سے اکتساب فیض کیا۔

ادیب کامل,ادیب فاضل اور تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو? بات طویل ہو گئی نواب ناظم میو نے بہت خوبصورت پیرا? میں مطبوعات ذوقی کا تذکرہ کیا ہے۔نجم سحر,تنویر فن,توقیر ادب,چیختی سوچیں,ذوقیات,زندہ اجالے,خون انسانیت,تسنیم فصاحت والعروض,ادبی سفرنامہ,نور لم یزل,۔۔۔اپنے استاد محترم سے اتنی محبت کہ مصنف نواب ناظم میو صاحب عرض موئلف میں رقمطراز ہیں۔۔کہ اساتذہ کرام کی عزت و وقار اور ان کے احترام کا پاس اس قدر کہ ان کی شان میں ایک خوبصورت کتاب لکھ دی

بقول شاعر۔۔۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔موڈوف لکھتے ہیں کہ اردو شعراء کے جھرمٹ میں ذوقی مظفر نگری مرحوم شعروادب کی ایسی شمع تھے جن کی تخلیقات میں بلند تخیل,شعری اور مطالعہ کائنات کی واضح جھلک ملتی ہے۔اور ہمراہ ان صفات کے ان کی شعری پرواز کا پرندہ بھی آسمان شاعری پر نرم روئی سے پرواز کرتا ہے۔پر جھٹکنا اور الفاظ ومعانی کے موتی بکھیرتا نظر آتا ہے۔مزید مصنف استاد محترم کے لیے الفاظ اور کلمات کا خزینہ دامن میں سما? تھے جو قرطاس کتاب کی زینت بنا دیا۔استاد کی شخصیت, کردا,عادات,پر اس خوبصورت پیرا? میں روشنی ڈالی ہے۔موصوف مصنف چونکہ خود استاد ہیں

اس لیے استاد کی ہستی اور شخصیت پر بڑے فخر سے روشنی ڈالتے ہیں۔کتاب میں موصوف نے اپنے استاد محترم کی ہمہ جہت ادبی وشعری خوبیوں کا بسیط تذکرہ کیا ہے۔انہوں نے استاد کی شخصیت ذوقی مظفر نگری کو اکیڈمی سے تعبیر کیا ہے۔مزید استاد معظم سے ابتدائی ملاقات کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ 1982 کے قریب ایک مشاعرہ میں شرکت کی۔اس کی صدارت ذوقی مظفر نگری نے کی تھی

اس طرح آشنائی اور سیکھنے کا آغاز ہوا۔مزید لکھتے ہیں کہ خون انسانیت تصنیف لکھ کر استاد محترم ذوقی مظفر نگری نے تاریخ ساز کام کیا۔مزید ان کی شاعری جس میں حمد ونعت,اور غزلیات اور نثری طرز نگارش بہت قیمتی سرمایہ ہے۔ایک مقام پر مصنف لکھتے ہیں ذوقی مظفر نگری غزل کے بنیادی شاعر۔۔۔اس میں تفصیل سے ذوقی مظفر نگری کا ادبی مقام اور مثالی شاعری کا تذکرہ حسیں پیرا? میں کرتے ہیں

۔محترم ذوقی مظفر نگری کے استاد, تیزاب احاطہ اور استادانہ شاعری کی آبشار,بشیر رحمانی کے ہاں جاوید قاسم کی ملاقاتیں,استاد محترم جناب ذوقی مظفر نگری اور ان کے شاگرد بشیر رحمانی کے مکالمات,تنویر فن کی کرنیں اور اندر کے اندھیرے,توقیر ادب کی ادب پروری,متاع ذوقیہ,نامور شخصیات کا منظوم تذکرہ(زندہ اجالے),خون انسانیت اور استاد معظم,ادبی سفر نامہ کے ظاہری باطنی گوشے,

استاد محترم کے نثری کاروں میں شعری گھنٹیوں کی صدائیں,علامہ ذوقی مظفر نگری مرحوم کی شاعری کی شمع اور پروانوں کی پرواز, استاد محترم کی قومی خدمات, خدمات وادب,کے شاگردوں کا اعتراف حقیقی,استاذالاساتذہ کی شاعری فن تنویر پر چند الفاظ کے عنوان پر محمد احسان ایڈوکیٹ کی خوبصورت تحریر,علامہ ذوقی مظفر نگری کا آخری شاگرد ہونے کا اعزاز کے عنوان پر فرزند علی شوق ایڈوکیٹ کی تحریر کتاب کے حسن وجمال کی رنگینی میں بے پناہ اضافہ کرتی ہے۔سالار کاروان ادب۔علامہ ذوقی مظفر نگری لاہور کے عنوان سے اکرم سحر فارانی لاہور نے عمدہ تحریر لکھ کر کتاب کی اہمیت میں اضافہ کیا ہے۔

علامہ ذوقی مظفرنگری کی یاد میں۔۔سابق وائس چانسلر رابعہ چوہدری نے بھی زبردست تحریر شامل کی جو مصنف کتاب کے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔پیش لفظ کے عنوان سے پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر منیرالدین چغتائی اور بھی قیمتی تحریریں کتاب کے زینت ہیں۔اس ضمن میں اتنی سی بات کہنا ضروری خیال کرتا ہوں کہ مصنف محترم نواب ناظم میو صاحب مزید کتابیں لکھ کر خدمت انسانیت کا مقدس فرض ادا کرتے رہیں گے

۔بحیثیت ایڈیٹر روزنامہ بارڈر لائن لاہور اور روزنامہ سسٹم لاہور میں صحافتی فرائض سر انجام دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔یہ خوش آئند بات ہے کہ موصوف استاد کی عزت اور قدر کے خواہاں ہیں۔یہ سچی محبت ہے۔انسانیت کی خدمت یہی ہے کہ درد دل سے کام کیا جا?۔میں ملک ریاض صاحب کالم نگار اور تبصرہ نگار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں

کہ کتاب زبیرہ ذوق پر خوبصورت تبصرہ لکھا امید کی جا سکتی ہے عصری تقاضوں کے مطابق یہ سلسلے جاری رہیں گے۔جناب نواب ناظم میو صاحب کی محبت کہ اپنی کتاب پر چند معروضات پیش کرنے کا موقع دیا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں