گذشتہ سے پیوستہ سال ا س لحاظ سے تاریخی تھا کہ حکومت ِ پاکستان نے وطن ِ عزیز پاکستان 87

تباہی کار استہ

تباہی کار استہ

جمہورکی آواز
ایم سرور صدیقی

ٹرانس جینڈر کے بھیانک نتائج آناشروع ہوگئے ہیں مسلم معاشرے کو اس ایکٹ پر بہت سے تحفظات تھے اس قانون کے نفاذ سے خاندانی نظام پر کاری ضرب لگی ہے اور یہ مادرپدر آزادی کی طرف اٹھنے والا انتہائی خوفناک اقدام ہے اس کی آڑمیں مردکی مرد اور عورت کی عورت سے شادی ممکن بنادی گئی ہے

اسلام نے ہم جنس پرستی کو انتہائی حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے حضرت لوط علیہ السلا م کی امت کو عذاب میں مبتلاکرکے تباہ کردیا تھا لیکن روشن خیالی کے نام پر کچھ اسلام دشمن قوتیں دنیا بھرٹرانس جینڈر کو پرموٹ کررہی ہیں جو سراسر تباہی کا راستہ ہے اسی حوالہ سے ایک خوفناک خبرمیں انکشاف ہوا ہے کہ اسی سال کے آوائل میں بھارت میں تین سال سے ایک ساتھ رہنے والے ٹرانس جینڈر کے ہاں بچے کی پیدائش متوقع ہے، یہ ملک کا پہلا ٹرانس جینڈر جوڑا ہوگا جن کے یہاں بچے کی پیدائش ہوگی۔

بھارتی میڈیا کے مطابق ریاست کیرالہ میں ٹرانس جینڈر جوڑے ضیا پول اور زہد نے انسٹاگرام پر حاملہ ہونے کا اعلان کیا۔ ضیاء پول ایک مرد تھا جو جنس تبدیل کرکے عورت بنا گیا جبکہ زہد ایک عورت تھی جو اپنی جنس تبدیل کروا رہی تھی کہ اسی دوران حمل ٹھہر گیا اور اب وہ اگلے دو ماہ میں بچے کو جنم دیں گی۔ ٹرانس جینڈر جوڑے نے ہارمون تھراپی کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کروائے تھے۔ زہد کے نسوانی تولیدی اعضا کا آپریشن نہیں ہوا تھا اسی طرح ابھی ضیاء نے بھی مردانہ تولیدی اعضا کا آپریشن نہیں کروایا تھا۔

ٹرانس جینڈر جوڑے کا کہنا ہے کہ پہلے ہم دونوں نے بچہ گود لینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن قانونی چارہ جوئی آڑے آرہی تھی لیکن اب قدرت نے انھیں ان کا اپنا بچہ دیدیا ہے۔ پرانس جینڈر ایکٹ کو 2018ء میں پاکستان میں پارلیمنٹ نے 2018 میں قانون میں قانونی طور پر خواجہ سرا افراد کو مساوات فراہم کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لئے نافذ کیا تھا۔ اس قانون کا مقصد ملک میں خواجہ سرا افراد کو قانونی طور پر تسلیم کرنا ہے کیونکہ خیبرپختونخوا میں خواجہ سراؤں نے مبینہ طور پر 479 تشدد کے واقعات کا سامنا کیا۔

ستمبر 2020 میں، ایک ممتاز ٹرانس جینڈر کارکن گل پانڑا کو چھ بار گولی مار دی گئی۔ نایاب علی پر مبینہ طور پر جنسی زیادتی اور تیزاب سے حملہ کیا گیا جس کا دعویٰ خواجہ سرا ہونے کا تھا۔ 2019 میں، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ شمع، ایک خواجہ سرا صحافی، پاکستان کے ایک شہر، پشاور میں نو مردوں کی طرف سے زیادتی کا نشانہ بنی۔ 1998 میں ٹرانس جینڈر لوگوں کی کل آبادی 10,418 تھی

۔ 2015 میں، وزارت صحت نے اشارہ کیا کہ ملک میں خواجہ سراؤں کی تعداد تقریباً 150,000 ہے۔ ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ پہلی بار نہیں ہے جب ٹرانس لوگوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس طرح کی حکومتی دفعات کی گئی ہوں جس پر سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2010 میں قرار دیا تھا کہ ٹرانس لوگ عام پاکستانی شہریوں کے برابر ہیں۔ ملازمت کے مواقع، تعلیم، اور انہیں امتیازی سلوک سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔

اس اعلان کے بعد پچھلی مردم شماری میں تقریباً 40% ٹرانس جینڈر لوگوں نے ناخواندہ ہونے کی اطلاع دی تھی، اور پاکستان میں ٹرانس لوگوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ رقص اور جنسی لیبر ہے لیکن اس کی آڑ میں عیاش لوگوں نے ہم جنس پرستی کو ایک باقاعدہ کاروبار بنا ڈالا ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ کے لیے پاکستان کی سپریم کورٹ نے اعلان کیا تھا، اور اس نے صرف ٹرانس لوگوں کو رسمی مساوات کی پیشکش کی ہے

نہ کہ بنیادی مساوات کی حامل ہے اس پورے قانون میں واحد سزا کا ذکر ان گرووں کے خلاف ہے جو اپنے چنوں کو بھیک مانگنے کی ترغیب دیتے ہیں سزاؤں کی کمی قانون کو کوئی دانت نہیں دیتی، اور شہریوں کو قانون پر عمل کرنے کے لیے کوئی حقیقی ترغیب نہیں ہے، اور اس کے نفاذ کے لیے کوئی بنیادی ڈھانچہ یا ٹھوس سزائیں نہیں ہیں۔ یہ خاص طور پر تعلیم کے موضوع پر موجود ہے قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ٹرانس شخص کسی اسکول میں داخلے کی ضروریات کو پورا کرتا ہے تو اس کی جنس اس اسکول میں ان کے داخلے کا فیصلہ کن عنصر نہیں ہوسکتی ہے۔ یہ داخلے کے اصل عمل کو حل کرتا ہے

جو کہ اسکول میں داخلے کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، قانون سماجی داغداروں اور رسوم و رواج پر توجہ نہیں دیتا جو ایک ٹرانس فرد کے لئے ان اہداف کو پہلی جگہ حاصل کرنا انتہائی مشکل بنا دیتے ہیں۔ قانون ٹرانس کمیونٹی کے بہت سے اہم مسائل کو بھی حل نہیں کرتا ہے جن میں ٹرانس لوگوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم شامل ہیں، اور ٹرانس لوگوں کے لیے صحت کی مناسب دیکھ بھال کرنا ہے۔ 2022 میں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے قانون پر چار سال بعد دوبارہ بحث ہوئی۔ ترمیمی بل پر بحث کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان کا کہنا تھا

کہ خواجہ سراؤں کی جنس کے تعین کے لیے میڈیکل بورڈ کا قیام ضروری ہے جبکہ اسلامی نظریات کی حامل شخصیات اور مذہبی جماعتوں نے ٹرانس پروٹیکشن ایکٹ ے نافذ کرنے پر شدید احتجاج کیا تھا کہ کسی اسلامی ملک میں ایسی خرافات کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا یہ مغربی دنیا کو خوش کرکے مسلمانوں کے مضبوط خاندانی نظام کے خلاف ایک گھنائونی سازش ہے یہ سراسر تباہی کا راستہ ہے

اس لئے حکومت ایسے حساس معاملات کو حل کرنے کے لئے ہوش سے کام لے کیونکہ کسی بھی شخص کو اپنی جنس کا تعین کرنے کا حق دینا انتہائی خوفناک ہے اس سے نہ صرف و راثت کے مسائل گھنجلک ہوجائیں گے بلکہ جنسی بے راہروی پھیلنے سے معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں