67

حقیقی بڑا معرکہ

حقیقی بڑا معرکہ

کالم: مدار
عرفان مصطفی صحرائی

دنیا میں ہر فرد اپنے ملک سے محبت کا دعوے دار ہوتا ہے،لیکن حیرت ہے، پاکستانی قوم اپنے ہاتھوں ملک کو برباد کرنے پر تلے ہے،عام آدمی سے کیا گلہ،اسے روٹی کے حصول کے ایسے چکر میں ڈال دیا گیا ہے کہ اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ گئی ہے،مگر ہمارے پالیسی سازوں کے اوسان خوب بحال ہیں،ان کے حالات دن بدن بہتر سے بہترین ہو رہے ہیں،یہ آئین کی پاس داری نہیں کرتے،

افہام و تفہیم سے مسائل نہیں سلجھاتے،پارلیمنٹ کو مضبوط کرنے کی بجائے اپنے معاملات اعلٰی عدالتوں میں لے جاتے ہیں،عوامی مفاد کا تعین جج صاحبان سے کروائیں گے۔قانون سازی پارلیمان کا حق ہے،آئین میں کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ پارلیمان کے بنائے قانون کو پرکھے یا اپنے تجزیے کے مطابق بد نیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے کالعدم کرے،اگر ایسا ہوتا ہے تو وہ ادارہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہا ہے،جس کا نتیجہ فساد اور عدم استحکام کی صورت میں سامنے آتا ہے اور پاکستان میں یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔
حکمرانوں کی نا اہلی نے ملک میں مسائل کا انبار لگا دیا ہے، آج ملک توانائی کے بڑے بحران کا شکار ہے اور توانائی کے بغیر کسی ملک کی ترقی نا ممکن ہے،اس کا حل شمسی اور پن بجلی کے ذرائع کو ترقی دینے میں ہے،اس کے علاوہ متبادل انرجی کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ استعمال میں لایا جائے ،اس سے ملک توانائی میں خود کفیل ہو گا اور سستی توانائی بھی میسر ہو گی،تھرمل اور کوئلے سے بنائی کئی بجلی لاگت میں زیادہ اور ماحول دوست نہیں ہے،ترقی یافتہ ممالک متبادل انرجی پر تحقیق کر رہے ہیں

۔زرعی ملک ہوتے ہوئے خوراک کی پیداوار کا مسئلہ حل کرنے کے لئے کھاد کی بلیک مارکیٹنگ اور بیج کی بروقت اور سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا جائے،ملاوٹ شدہ ادویات اور ناقص بیج زرعی پیداوار پر اثر انداز ہو رہی ہیں ،اگر انتظامی معاملات معاملہ فہم افراد کے ہاتھوں میں دیا جائے ،اہداف کا تعین اندازوں کی بجائے مطالعے اور تحقیق پر لگایا جائے تو خوراک کا بحران نہ ہو۔پاکستان میں چینی یا زرعی اجناس کی کوئی کمی نہیں،

مگر محکمانہ بددیانتی اور شہروں میں اجناس کی منڈی کا میکنزم آڑھتیوں کے کنٹرول میں ہونے کی وجہ سے کسان ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے،کیوں کہ منڈی کے محرکات حکومتی کنٹرول میں نہیں، اسی لئے مہنگائی کا طوفان برپا ہے،ذخیرہ اندوز کا انتظامہ سے گٹھ جوڑمہنگائی کی بڑی وجہ ہے۔مہنگائی کی سب سے بڑی وجہ آڑھت ہے ،جو سبزی کسان سے پانچ روپے کلو خریدی جاتی ہے، وہ منڈی سے صارف تک کئی ہاتھوں سے ہو کر آتی ہے ،صارف تک پہنچتے وہ سو گنا مہنگی ہو جاتی ہے،لیکن ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔
موجودہ حکمران ملک چلانے کا وسعی تجربہ رکھتے ہیں ،کیوں کر ممکن ہے انہیں حالات پر قابو پانے کے گر معلوم نہ ہوں ۔گو کہ انہیں مسائل ورثے میں ملے ہیں ،آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں ،مگر جب انہوں نے اقتدار کا بیڑا اٹھایا تھا،یہ باخوبی مسائل سے روشناس تھے

۔آئی ایم ایف کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ بجلی ٹیرف ہے،گردشی قرضوں میں کمی دیگر ٹیکس معاملات پر بھی کسی حد تک ڈیڈ لاک برقرار ہے ،یہ بھی درست ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لا کر معاہدہ مکمل کرنا چاہتی ہے،اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ انہیں آپ پر اعتماد نہیں ،آئی ایم ایف سمیت سب کو معلوم ہے کہ یہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے ،کیوں کہ یہ آئی ایم ایف کے ساتھ آپ کا 23 واں پروگرام ہے ۔ویسے شرم آنی چاہیے کہ جو حکومت بھی آئی

اس نے قرض سے معاشی مسائل حل کرنے کی کوشش کی ،ایسے وسائل کی طرف توجہ نہیں دی ،جس سے معیشت مستحکم ہو تی ،پچھلے پچیس برسوں میں ہم پن بجلی پر چلتے تھے،لیکن پھر آئی پی پی پر چلے گئے ، پن بجلی حکومت کو مفت پڑتی تھی ،لیکن ہم نے ڈیم بنانے کی طرف توجہ نہیں دی،حکمرانوں کی اس غفلت کی قیمت اب عوام ’’امپورٹڈ‘‘مہنگی بجلی لے کر ادا کر رہے ہے۔معصوم عوام آئی ایم ایف کو اپنا دشمن سمجھتی ہے ، ایسا ہر گز نہیں ،دیگر بنکوں کی طرح آئی ایم ایف بھی ایک بینک ہے

،اس کا ایک سسٹم ہے،یہ بات سمجھنے کی ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط کوئی سازش نہیں بلکہ بزنس فارمولے کے تحت بنائی جاتیں ہیں،اصل وجہ یہ ہے کہ قرضہ لینا بری بات نہیں ہے ، لیکن جن مقاصد کے تحت قرضہ لیا گیا ہو ،اسے پورا نہ کیا جانا بری بات ہے۔حکومت قرض تو ایمرجنسی کی بنیاد پر لیتی ہے

،مگر خرچ غیر ضروری مقاصد کے لئے کر لیتی ہے،ہماری ترجیحات غلط ہوتیں ہیں،جس کی وجہ سے قرضے کی واپسی ممکن نہیں رہتی،ملکی خزانہ بھرنے کے وسائل تلاش کرنے کی بجائے اقتدارِ ہوس اور ذاتی مفادات کا حصول ترجیح ہوتا ہے ،جس کا نتیجہ عوام کو غربت ،مہنگائی ،بے روزگاری اور افلاس کی صورت میں ملتا ہے۔
جس ملک کی درآمدات عروج پر ہوں اور برآمدات نہ ہونے کے برابر ہو ،وہاںانڈسٹری،ایگریکلچر اور دیگر وسائل کی طرف توجہ نہ ہو رہی ہو بلکہ کرپشن اور کک بیک کی طرف توجہ ہو ،افہام و تفہیم ممکن نہ ہو ،سیاسی عدم استحکام ہو ،اپنے کام کی بجائے دوسروں کے کام پر زیادہ توجہ ہو ،ان کی سوچ حل کی طرف نہیں

بلکہ وقت گزارنے کی طرف ہو ،وہاں حالات نہیں بدلتے ۔جب تک اپنے ملک کو ترقی دینے کے لئے وسائل تلاش کر کے محنت ،لگن اور ایمانداری سے کام نہیں کیا جائے گا،ہر ادارہ اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرے گا، پارلیمنٹ کو
مضبوط نہیں کیا جائے گا،ہمارے مسائل حل نہیں ہو سکتے ،حکومت کو چاہیے قرضہ لے کر اپنی ترجیحات پر غور کرے ،سب سے پہلے ایسے اقدامات کئے جائیں، جس سے آئندہ کبھی آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے اور عوام سکھ کا سانس لے سکیں ۔آج ملک و قوم جن مشکلات اور مسائل سے گزر رہے ہیں،

ان کی بنیادی وجوہات کو یک جا کرنا اور سمجھنا بڑی بات نہیں ،مگر ان کا حل تلاش کرنا بڑا معرکہ ہے،لیکن اس کے لئے حقیقت پسندی،تعصبات و جذبات سے ماورا ہو کر وطن عزیز کا ہر سٹیک ہولڈر کو امانت و دیانت اور صدقِ دل سے پارلیمنٹ کی بالا دستی اور آئین پاکستان پر عمل درآمد کا شعوہ اپنانا ہو گا،ہمارے تمام مسائل حل ممکن ہے،مگر اس کے لئے اخلاص شرط ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں