55

موت کی دعا

موت کی دعا

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

وہ ہمیں جب پہلی بار ملا تو سردی سے کانپ رہا تھا اس کے منہ سے بے جملے خارج ہورہے تھے ،حالت انتہائی خستہ۔پائوں گھسیٹ گھسیٹ کر چلنے کی وجہ سے جوتوںکی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی تھی۔بال گرد و غبارسے اٹے ہوئے شکل و صورت سے بھکاری نہیں لگ رہا تھا مگر تھا بھکاری۔۔۔ یقینا پروفیشنل نہیں تھا

اس بوڑھے کو دیکھ کر ہم ٹھہر گئے اس کی آنکھوں میں ایک لحظے کیلئے امید کی ایک کرن ٹمٹمائی پھر وہ دور کہیں خلائوں میں گھورنے لگا ہمیں لگا شاید وہ بھوکا ہے۔دوستانہ انداز میں مسکراکراس کے شانے پرہاتھ رکھ کر پوچھا آپ کھانا کھائیں گے پہلے اس نے انکارکے اندازمیں سرکو ہلایا پھر جلدی سے بولا ہاں۔ہم نے انہیں گھر کے اندر آنے کو کہا وہ بمشکل چلتا چلتا پورچ تک آیا اور وہیں بیٹھ گیا

ہم نے اشارے سے اندر آنے کہ کہا ۔۔اس نے ہاتھ اٹھاکر گویا اعلان کیا میں یہیں ٹھیک ہوں بے رغبتی سے کھانا کھاکر چائے کا آدھا کپ پی کر بقایا وہیں انڈیل دی ہم نے اسے کچھ روپے دئیے اس نے ججھکتے ہوئے ہاتھ بڑھایا اب اس کی حالت پہلے کی نسبتاً قدرے بہتر تھی بوڑھے نے کہا م ۔۔مم۔۔میرے لئے دعا کرنا ہم نے تفہیمی انداز میں سر ہلایا وہ پھر بولا میرے لئے موت کی دعا کرنا۔۔۔اللہ مجھے پردہ دیدے ۔ہم اس کی بات سن کر ’’سن’’ ہوگئے۔ کچھ دیر بعد ہم نے کہا ایسا نہیں کہتے۔ آپ اکیلے ہیں ۔بچے نہیں کیا؟

بیوی ہے کیا؟ گھر۔۔ ہم نے ایک ہی سانس میں کتنے سوال کرڈالے۔۔۔ نکال دیا وہ انتہائی کرب سے بولا جیسے اس کی روح میں زخم ہی رخم ہوں ۔کچھ کہا تو بدنامی۔وہ اٹھ کھڑا ہوا منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑانے لگا اور بے ربط الفاظ کہتا چلا گیا۔ ایسے کردار ہمارے معاشرہ میں قدم قدم پر دکھائی دیں گے جو بڑھاپے میں بھیک مانگتے ہیں یا ٹھیلہ لگاکر شدید محنت کرتے پھرتے ہیں ۔ جن کے آرام کے دن ہیں مجبوریاں انہیں گلی گلی صدا لگا کر چیزیں بیچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔۔ حالات انہیں اس موڑ پر لے آتے ہیں

کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی زندگی کے آخری ایام مفلسی، بے بسی اور بیماری کے عالم کے باوجود محنت مزدوری کرکے اپنا اور گھروالوںکا پیٹ پالتے ہیں یقینا ایسے بوڑھوں کے پاس کوئی سیکنڈ آپشن بھی نہیں ہوتا یہ لوگ ہماری ہمدردی کے حقدارہیں۔ ہماری توجہ کے مستحق ہیں اور ہماری محبت کے لائق بھی۔ کوئی ہم سے پوچھے آپ کو کس چیز سے زیادہ ڈر لگتاہے ہم بلاتامل کہہ دیں گے بڑھاپے سے۔۔واقعی بڑھایا دنیا کی سب سے خوفناک چیزہے محسوس کریں ایک جیتا جاگتا انسان اپنے ہی بدن کے اعضاء اپنی مرضی کے مطابق ہلانے جلانے پرقادر نہ رہے دوسروںکا محتاج ہوکررہ جائے کس قدرلاچاری ہے کہتے ہیں

بڑھاپا سو بیماریوںکی ایک بیماری ہے۔ ہمارے ایک دوست ہیں جاویداقبال بھٹی وہ بوڑھے دکانداروں،ادھیڑ عمر پھیری والوں یا معذوروں سے سودا سلف اور فروٹ خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں ان کا کہنا ہے اس طرح ہم سب سینئر سٹیزن کی کفالت کرسکتے ہیں یہ بھی ہمدردی کی ایک شکل ہے مدد کرنے کا ایک انداز بھی۔ جس سے انہیں بھیک مانگنے سے بچایا جا سکتاہے ان کی انا مجروح نہیں ہوتی

جن کے گھر والے بھی انہیں’’ فالتو ‘‘ سمجھنے لگ جاتے ہیں۔یقین جانئے ہیں ہمیں خود بڑھاپے سے بہت خوف آتاہے ہمارے معاشرے میں جتنی تیزی سے اخلاقی اقدار اپنی قدر کھوتی جارہی ہیں اتنی ہی تیزی سے رشتوں کااحترام بھی دن بہ دن کم ہوتا جاتاہے کسی کا خون سفید ہوگیاہے کسی کو مہنگائی اور غربت نے جینا دوبھر کررکھاہے ادویات ،ڈاکٹر اور اچھی خورک اتنی مہنگی ہے کہ افورڈ نہیں ہوتی کسی کے پاس وسائل ہیں

تو ان کے پاس اپنے پیاروں کے لئے وقت نہیں ہے یہاں حکومتی سطح پر یا کسی اور انداز میں سینئر سٹیزن کی کفالت کا کوئی مؤثر انتظام نہیںیہی وجہ سے کہ بیشتر بوڑھوںکو فالتو سمجھ کر ان کے پیارے ہی ان سے منہ موڑ لیتے ہیں یہ رویہ بوڑھے والدین کیلئے انتہائی کرب اور اذیت کا سبب بنتاہے اورمایوسی کے عالم میں وہ خود اپنی موت کی دعا کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ اسلا م نے واضح کہاہے کہ مایوسی گنا ہ ہے

بندے کو اپنے رب سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے لیکن جب بوڑھوں کو ان کے گھر والے بوجھ جان کر کچھ خیال نہ کریں تو پھر ان کی شخصیت پر گہرااثر پڑتاہے یہ سب جانتے ،مانتے اور سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بوڑھے والدین کی طرف محبت سے دیکھنا عبادت قراردیاہے افسوس ہم پھر بھی نہیں سمجھتے اکثر لوگ یہ دعا کیا کرتے ہیں کہ اللہ کسی کا محتاج نہ کرے ہم چلتے پھرتے اس دنیاسے رخصت ہو جائیں لیکن یہ نظام ِ قدرت ہے ۔۔اللہ تعالیٰ کا اپنا سسٹم ہے ضروری نہیں کہ انسان جیسے سوچتاہے

ویسے ہی ہو جائے بہرحال بڑھاپا ایک فطری امرہے اس سے انکار کرنا بھی چاہیں تو ممکن نہیں ۔ اف خدایا وہ انسان کتنا بے بس ہوگا جو اپنے مرنے کی دعا کرتاہو یقینا اس کیفیت کو بے بسی اور مایوسی کی انتا ہی کہا جا سکتاہے۔ درحقیقت اس حقیقت سے نظر بھی نہیں چرائی جا سکتی کہ بچپن، جوانی کے بعدپھر بڑھاپا بھی آنا ہے لاکھ اچھی خوراک کھانے سے بچپن اور جوانی لوٹ کر نہیں آسکتی اپنے پیاروں کی محبت کی خاطرکوشش کرنی چاہیے ان کا بڑھاپا آرام سے گذرے یہ ہم پرفرض بھی ہے

اپنے بزرگوںکا قرض بھی کہ ہم ان کااحساس کریں اس وقت ہمیں وہ بوڑھا شخص رہ رہ کر یاد آرہاہے جس نے کہا تھا م ۔۔مم۔۔میرے لئے دعا کرنا ۔ موت کی دعا کرنا۔۔اللہ مجھے پردہ دیدے ۔ لیکن ہماری تو اللہ کے حضور اتنی دعاہے کہ انسان اتنا عاجز۔۔اتنا بے بس اور اتنا بھی مجبور نہ ہو کہ وہ اپنی موت کی دعا کرتا پھرے۔جب حیات بوجھ اورزندگی وبال بن جائے تو والا معاملہ اور کیفیت بن جاتی ہے تو یہ بے بسی کی انتہا ہے اللہ ہم سب کو اتنی خوشیاںعطا کرے کہ کوئی اپنے لئے مرنے کی دعا نہ مانگے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں