موجود دور میں زرد صحافت ایک خطرناک شکل اختیار کر چکی ہے۔اس وقت حقیقت پسند صحافیوں کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے 38

سیاسی انتشار کیا رنگ لائے گا!

سیاسی انتشار کیا رنگ لائے گا!

ملک بھر میں سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی کے باعث سیاسی عدم استحکام بڑھتاہی جارہا ہے ،سیاسی جماعتوں میں اختلافات ہوتے ہیں اورحکمران و مخالفین کے مابین تنازعات بھی ہوتے ہیں،مگر اس بار جو پر تشدت مظاہرے دیکھنے میں آرہے ہیں ،وہ انتہائی خوفزدہ کر دینے والے ہیں ،اس حوالے سے حکومت کی نظر صرف تشدت کے پہلو پر ہے

،مگر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس قدر لوگوں کا رد عمل جارحانہ کیوں ہورہا ہیے ،یہ کسی سیا سی کردار کی جانب سے لوگوں کو دوغلانے کا نتیجہ ہے یا اس کے کچھ اور ہی اسباب ہیں ،اگرغیر سیاسی ذہن کے ساتھ غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے توپُر تشدت رویوں کے اسباب میں لوگوں کی محرومیوں کا خاص عمل دخل دکھائی دیتا ہے۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ حکمران اتحاد عوام کی محرمیاں دورکرنے اور عوام کو رلیف فراہم کرنے کے دعوئوں کے ساتھ آئے تھے ،مگر ایک سال گزرنے کے بعد بھی عوام کیلئے کچھ نہیں کر پائے ہیں ،عوام آئے روز بڑھتی مہنگائی بے روز گاری کے مسائل میں دھنستے جارہے ہیں ،جبکہ حکمران اتحاد عوامی مسائل کا تدارک کرنے اور عوام کو بڑھتی مہنگائی سے نجات دلانے کے بجائے سیاسی مخالفین کو دبانے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ،حکمران اتحاد ایک طرف عوام مسائل نظر انداز کررہے ہیں

تو دوسری جانب اپنا اقتدار بچانے کیلئے عوام مخالف فیصلے کیے جارہے ہیں ، یہ اغیار کے مسلط کردہ فیصلوں کا ہی نتجہ ہے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیاہے ،عوام پر تشدت ہجوم کی شکل میں سڑکوں پر سراپہ احتجاج دکھائی دینے لگے ہیں ۔یہ پر تشدت عوامی ہجوم حکومت کیلئے انتہائی تشویش کاموجوب بنتاجا رہا ہے ،لیکن حکومت اپنی نااہلیوں اور کمزوریوں کی اصلاح کرنے کے بجائے ایک بار پھر پرانے آزمائے حربے بروئے کار لارہی ہے ، ایک طرف سیاسی مخالفین کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا جارہا ہے

تو دوسری جانب غریب لوگوں کو پٹرول میں سبسڈی دینے کے ساتھ مفت آٹاسکیم شروع کردی گئی ہے ،اس سے غریب کو اتنا فائدہ ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،جتنا کہ حکمران سیاسی فائدے کی اُمیدلگائے بیٹھے ہیں ،حکمران قیادت کبھی اپنے سیاسی فائدے کے بغیر کوئی عوام اقدام نہیں کرتے ہیں ،لیکن حکمرانوں کے سیاسی مفادات میں عوام رُل جاتے ہیں ،اس سیاسی انتقام سے لے کر مفت آٹے کے حصول تک میں عام غریب صرف رُل ہی نہیں رہے ،بلکہ بھکاری بن کر بے موت مرَبھی رہے ہیں ۔
یہ عوام کی بد قسمتی ہے کہ انہیں حقیقی حق رائے دہی سے محروم ہی رکھا جارہا ہے ،عوام اپنے میں سے اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنا چاہتے ہیں ،لیکن ہر بار عوام کے انتخاب کی آڑ میں ان کی مرضی کے خلاف اشرافیہ میں سے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ہیں،یہ عوام کے منتخب نمائندے نہیں ،لیکن عوام کی نمائندگی کے زبردستی دعوئیدار بن جاتے ہیں ،انہیں عوام کی مشکلات کا احساس ہے

نہ ہی عوام کے مسائل کا تدرک اپنی تر جیحات میں شامل کرتے ہیں ،یہ کل اپنے اور اپنے لانے والوں کے مفادات کا تحفظ کرتے تھے ،یہ آج بھی عوامی مفادپر ذاتی مفادات کو تر جیح دیے رہے ہیں ،یہ عوام کی نمائندگی کے دعوئیدارہوتے ہوئے بھی عوام کی رائے سے خوف زدہ ہیں ،اس لیے عوام کی عدالت میں جانے سے بھاگ رہے ہیں ،یہ عوام کے بجائے مقتدر قوتوں کے سہاروں کے متلاشی ہیں ،یہ اقتدار میں اُن کے سہارے آتے ہیں

اور اقتدار میں آنے کے بعدبھی اُن ہی کی جانب دیکھتے رہتے ہیں ،یہ عوام کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں نہ ہی عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں ،عوام نے بھی اب ان کے عوام مخالف رویئے کے باعث ان پر اعتماد کر ناہی چھوڑ دیا ہے ۔حکمران اتحاد نے اپنے گیارہ ماہ کے دور اقدار میں جو عوام مخالف اقدامات کیے ہیں ،انہوں نے عوام کو انتہائی مایوس کیا ہے ،حکومت وقت کیلئے آج جس قسم کے ہجوم وجہ تشویش بنے ہوئے ہیں ،یہ عوامی اُمنگوں کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے ،لیکن حکومت معاشی پہلو کو نظر انداز کر کے صرف سیاسی تناظر میں دیکھ رہی ہے ،اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید
بڑھیں گے ،سیاسی عدم استحکام کے ہاتھوں پہلے ہی ملکی معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے ،حکومت کے غیر جمہوری اقدام سے مزید انتشار پھیلنے کا ندیشہ ہے ، وزیر اعظم شہباز شریف کوئی سیاسی استحکام لاسکے نہ اسحاق ڈار کے معاشی بحالی کے دعوئے پورے ہوسکے ہیں ،حکمران اتحاد کی نااہلیاں سب کے سامنے عیاں ہو چکی ہیں ،اس کے با وجود اقتدار چھوڑا جارہا ہے نہ عوام کی عدالت سے رجوع کیا جارہا ہے ،

حکمران اتحاد کا غیر جمہوری رویہ ان ہی کی مشکلات میں اضافہ کرے گا ،اس سے بچائو کا آج بھی وہی پرانا نسخہ ہے کہ غیر سیاسی قوتوں کے اشاروں کے منتظر رہنے کے بجائے افہام و تفہیم کی راہ پر چلتے ہوئے سنجیدگی سے آپس میں مکالمہ کیا جائے ،آج جتنی سیاسی تدبر و تحمل کی ضرورت ہے

،اس سے قبل کبھی اتنی محسوس نہیں کی جارہی تھی،سیاسی مسائل کا حل طاقت کے ذریعے پہلے نکلا ہے نہ ہی آئندہ نکل پا ئے گا ،سیاسی قیادت کی بروقت دانش مندی ،دور اندیشی اور جمہوری سوچ ہی درپیش انتشار سے باہر نکال سکتی ہے ،وقت بڑی تیزی سے ریت کی طرح مٹھی سے نکالا جارہا ہے ،اگر سیاسی قیادت نے یکجاں پا کستان میں یکجاں ہونے میںمزید دیر کر دی تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا ،سارے ہی خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں