زکاة سے غرباء کی امداد ہی نہیں غربت سے نجات بھی مطلوب ہے
نقاش نائطی
۔ +966562677707
صدقہ خیرات ضرورت مندوں تک پہنچانا جہان ضروری ہے، وہیں پر اسوء رسول ﷺ پر عمل پیرا مسلم معاشرے کو غربت افلاس سے نجات دلوانا بھی ضروری یےاگر کسی تونگر رئیس کو جب یہ پتا چلتا ہے کہ اس کا کوئی نوکر، دل سے اس کا کوئی کام نہیں کرتا بلکہ صرف مہینے کے آخر ملنے والی تنخواہ کے لئے وقت گزاری کیا کرتا ہے سیٹھ لوگوں کے سامنے تو تندہی سے کام کرتا ہے، لیکن ان کی غیرموجودگی میں ڈیوٹی پر وقت گزاری کرتے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اپنے سیٹھ کی خدمت پر لگانے کے بجائے،صرف ڈیوٹی نبھانے کی حد تک لیپا پوتی کرتا پایا جاتا ہے تو کوئی سیٹھ ساہوکار، ایسے ملازم کو اس کی حقیقت کے ادراک باوجود، اس کے ناز نخرے برداشت کرتے ہوئے، اسکو سر آنکھوں پر بٹھائےکیا رکھے گا؟یاپہلی فرصت دوسرا کوئی اچھا ملازم ملتے ہی اسے نوکری سے نکال دے گا؟
اللہ نے ہمیں ہماری صلاحیتوں کے فقدان باوجود، جو مال دولت و ثروت ہمیں عطا کی ہے اور اس میں سے ڈھائی فیصد کم از کم زکاة کی ادائگی جہاں فرض کی گئی ہے وہیں زکاة ادا نہ کرنے پر، جہان مختلف وعیدوں سے ہمیں عذاب قبر و محشر سے ڈرایا گیا ہے، وہیں نصاب زکاة سے زیادہ صدقات دینے پر اللہ کی طرف سے انعامات اکرامات کی بارش کے طورپر، بعد محشر اعلی و ارفع جنت دئیے جانے کے وعدے بھی سنائے گئے ہیں اور زکاة و صدقات صحیح مستحقین تک پہنچانے پر ہمارے نکالے گئے صدقات و زکاة کو کئی گنا زیادہ بڑھاچڑھاکر ہمیں آخرت میں انعام و اکرام ملنے کے حسین وعدے بھی گئے ہیں
ایسے میں ہم مسلمان تونگر و روساء پہلے تو کہاں اپنے مال و زر سے پورا پورا حساب جوڑ زکاة و صدقات نکالتے ہیں اور جو بھی نکالتے ہیں وہ معاشرے میں اپنی تونگری کا دھاک بٹانے کے لئے، معاشرے کے صاحب حیثیت لوگوں کو خوش کرنے، مدارس و مساجدکو بڑی بڑی رقوم دیتے ہوئے، ایک طرف معاشرے کے اداروں کے عہدے ہتھیاتے پائے جاتے ہیں تو دوسری طرف ان کے آگے پیچھے گھومنے والے، بے ضرورت پشتینی فقراء کی جھولی میں بھیک ڈال اور معاشرے میں اپنے نام نمود کے لئے، فقراء کی بھیڑ جمع کئے
، زکاة و صدقات کی تقسیم کرتے ہوئے،ایک طرف پشتینی فقراء کی ہمت افزائی کرتے معاشرے میں فقراء کی تعداد بڑھاتے پائے جاتے ہیں، تو وہیں پر ڈھونڈ ڈھونڈ کر صحیح معنوں عزت دار مستحقین زکاةو صدقات تک اپنی زکاة و صدقات نہ پہنچاتے ہوئے، ان صحیح معنوں مستحقین کو، ظالم معاشرے کے ہاتھوں استحصال کرنے انہیں چھوڑ رہے ہوتے ہیں ایسے میں اسلامی معاشرے میں زکاة و صدقات منظم جمع کر، ضرورت مندوں تک اسے پہنچانے کے لئے، جب تک مسلم معاشرے میں بیت المال نظام قائم نہیں ہوتا ہے
اس وقت تک، بیت المال نظام کی تشبیہ ہی کے طور، مخلص علماء و زعماء کی طرف سے معاشرے کے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کے لئےقائم،مختلف ادارے، سو سال سے قائم، مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل، یا جماعت المسلمین کے بیت المال نظام، یا مختلف علماء و زعماء حضرات کی طرف سے قائم کردہ روٹی بینک یا کپڑا بنک یا قوم کی بچیوں کی مالی امداد کر، انہیں وقت پر رشتہ ازدواج میں منسلک کرنے والے کوئی بھی مخلص ادارے میں، اپنی زکاةو صدقات جمع کرتے ہوئے، ایک طرف جہان وہ عنداللہ ماجور و سرخ رو ہوسکتے ہیں
وہیں پر، انکے زکاةو صدقات وقت پر ادائیگی ہی کے لئے غیر ضرورت مند فقراء کی جھولی میں کثیر رقوم ڈالتے ہوئے، مسلم معاشرے میں ہم دانستہ کہ غیر دانستہ فقراء کی افزودگی کرنے سے بچ رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ اللہ کے رسول محمد ﷺ کی بارگاہ میں جب ایک صحابی رسول ﷺ آکر اپنی کم مائیگی کا اظہار کئے، بھیک ہی کی شکل کچھ مدد طلب کی تھی تو آپ ﷺ، کسی بھی صحابی رسول ﷺ کو حکم دے، اس کی اعانت کرسکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے، اس سے پوچھا کہ تمہارے پاس کچھ ہے؟اس نے کہا
بلکہ انہیں کسی مناسب روزگار پر لگا، انہیں خود کمائی کرعزت و وقار والی زندگی جینے کا ہنر سکھانا ہے۔ معاشرے میں محنت مزدوری کر، حلال رزق کماتے چھوٹے تاجروں، ٹھیلے والوں سے، اپنا سودا سلف خریدتے ہوئے، انکی معشیت کو سہارا دینے کا کام کرنا ہے اور گھر میں بیٹھی عزت دار ماں بہنوں کے محنت مزدوری سے بنائے پکوان خریدتے ہوئے انہیں معشیتی استحکامیت بہم پہنچانی ہے
پڑوسی ملک بنگلہ دئش کے رئیس، محمد یونس نے اپنے قائم “گرامیں بینک مائیکرو فائینانسنگ اسکیم” سے مفلوک الحال غریب سے غریب عام مزدور پیشہ لوگوں تک،ان میں موجود صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے یا ابھارتے ہوئے، ان کی ضرورت مطابق کم مقداری قرض، وہ بھی نہایت آسان واپسی اقساط قرض شرائط پر، انہیں دلواتے ہوئے،بنگلہ دیش کی بھیک مانگتی غریب عوام کو روزگار پر لگا،
آپنے وقت کے غریب تر ملک بنگلہ دیش کو اپنی بڑھتی ہوئی جی ڈی پی کے سہارے ،عالم کے خود کفیل، تیز تر ترقی پذیر ملکوں کی صف میں کھڑا کرنے میں بڑا اہم رول ادا کیا ہے۔ جس کی تعریف و توصیف ہی کی خاطر، دل نہ چاہتے ہوئے بھی، دشمنان اسلام یہود و نصاری طاقتوں کو 2006 کا نوبل امن ایوارڈ کسی مسیحی یا یہودی کو درکنارکر، ان کے ازلی دشمن مسلمانوں میں سے، بنگلہ دیشی محمد یونس کو دینا پڑا تھا۔
چونکہ بنگلہ دیش تین طرف سے سمندر سے گھرا ہوا ہے اور کئی ایک ندیوں نالوں تالابوں پر انحصار کرتے، بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت مچھلیاں شکار کر گزر بسر کرنے کی عادی ہیں ،اسلئےاس تناظر میں محمد یونس کا کہنا تھا کہ وہ کسی غریب کو، بازار سے مچھلی خرید ایک وقت آسودہ ہو کھانے کے لئے بھیک میں کچھ روپئیے دینے کے بجائے، قول و عمل رسول اللہ ﷺ ، اسے حلال روزی کما کھانے کی ترغیب دینے ہی کے لئے، مچھلی پکڑنے والا جال اس کے یاتھ میں تھماتے ہوئے،
ندی نالے سمندر سے مچھلی پکڑ، نہ صرف اپنے اہل و عیال کی پرورش کرنے پر آمادہ کیا تھا بلکہ مسلم معاشرے میں ایک مسلم فقیر کی کمی بھی واقع کی تھی۔ اپاہج لولے لنگڑے فقیروں کو سمجھا بجھا کر ،انہیں حلال رزق کی آہمیت جتا، انہیں حلال رزق سے اپنے بچوں کی پروڑش کے لئے قائل کرتےہوئے، ایکیسوین صدی کی ابتدا ہی میں، اس وقت موبائل فون ماورائیت کے زمانے میں، گھروں سے نکلے لوگ، اپنے اپنوں سے تعلق برقرار رکھنے پبلک ٹیلیفون بوتھ پر منحصر جو ہوا کرتے تھے،
ان مجبور و معذور فقراء کو پبلک ٹیلیفون بوتھ لگا کر دے، جہاں معاشرے کی اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت عام لوگوں کو پبلک کال بوتھ مہیا کرواتے ہوئے، انہیں معذروروں کو انکے لئے حلال رزق کابندوبست کیا تھا۔ اور ساتھ ہی ساتھ مفلوک الحال اپنے وقت کے پس ماندہ ترین ملک کو،آج کے ترقی پزیر بنگلہ دیش تعمیر میں بڑا اہم رول نبھایا تھا۔ آج کے دور میں بنگلہ دیشی مسلم اکثریت؛گداگری کو صدا کے لئے خیر باد کہتے ہوئے، چھوٹی موٹی تجارت و صنعت سے منسلک ہوتے، اپنے ملک کو معشیتی ترقی پزیری پر گامزن کئے ہوئے ہے
اللہ کے رسول ﷺ کے زمانے میں، مدینہ کی تجارت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی،وہ اس وقت کے دین ابراہیمی کے پیروکار عربوں کو سود پر قرضہ دئیے، انہیں ہمیشہ سے اپنے زیر نگیں، غیر ترقی یافتہ رکھے ہوئے تھے۔ جب اللہ کے رسول ﷺ نے اسلام لانے والے مسلمانوں میں زکاةکا نظام رائج کیا تو کچھ عرصہ ہی میں مدینہ میں زکاة لینے والے باقی نہ بچے تھے۔چونکہ زکاة کے لغوی معنی ہی پاکیزگی یا صفائی کے ہیں
۔ اپنی دولت میں سے زکاة نکال،جہاں اپنی دولت کو پاک وصاف ستھرا رکھنا مقصود ہوتا پے وہیں پر زکاة کو ایسے منظم اندازمسلم معاشرے میں تقسیم کرنا مطلوب ہوتا ہے جس سے مسلم معاشرے کی غربت و افلاس و بھیک مانگتی گندگی صدا کے لئے صاف یا ختم ہوجائے۔ آج مسلم اکثریتی معاشرے میں جتنی زکاة نکالی اور تقسیم کی جاتی ہے اس سے مسلم معاشرے میں دست سوال کرنے والے نظر ہی نہیں آنے چاہئیے۔ لیکن اس کے برعکس مسلم اکثریتی معاشرے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ فقراء و مساکین کی تعداد میں اضافہ ہوتا پایا جاتا ہے
ہمارے ذاتی تجارت میں اپنی پوری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہم کس قدر ترقیات کے مدارج پارکرتے پائے جاتے ہیں کاش کہ ہمارے تونگر حضرات، اپنی خود کی نکالی لاکھوں کروڑوں کی زکاةرقوم کو، منظم انداز مسلم معاشرے میں تقسیم کرتے یا کراتےہوئے، اس کے لغوی معنی ہی کے مصداق معاشرے سے آج کے زکاة لینے والوں کو تجارتی راہ پر گامزن کرتے ہوئے، مسلم معاشرے سے بھوک و افلاس و بھیک مانگنے والی گندگی ہی کو پاک و صاف کرتے پائے جائیں
زکاة کا ایک مصرف غریب و نادار مستحقین زکاة بچوں کی دینی و عصری تعلیم بھی ہے تاکہ پڑھ لکھ کر، وہ خود معشیتی طور مضبوط ہوتے ہوئے،اپنے اہل خانہ کو بھیک مانگنے سے آمان رکھ پائیں، لیکن معاشرے کے مقتدر علماء کرام کا ایک طبقہ، جہاں معاشرے کے ان روساء سے اپنے تعلقات کی بنیاد پر،ان سے زکاة کا ایک بڑا حصہ حاصل کئے، انہیں معاشرے کے بڑے بڑے مقتدر عہدوں پر براجمان کراتے ہوئے، غیر ضروری عالیشان مدارس و مساجد تعمیر کرتے ہوئے، آپ ﷺ کے بتائے زکاة مد میں اور کئی مستحقین کو اس زکاة سے محروم رکھے پائے جاتے ہیں۔
زکاۃ کے مصارف 7 ہیں:- فقیر، مسکین، عامل، رقاب، غارم، فی سبیل اللہ اور ابن السبیل۔
1) فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو، یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے کے لئے بھی لوگوں سے سوال کا محتاج ہو۔
2) مسکین وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے، مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے۔کمائی سے زیادہ جائز اخراجات والا مسکین ہوا کرتا ہے
3) عامل وہ ہے جسے اسلامی سلطنت میں زکاۃ اور عشر وصول کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہو، اس کو بھی زکاۃ دی جا سکتی ہے۔
4) رِقاب سے مراد ہے غلام کو خرید کر اسے رہا کرانا، لیکن اب نہ غلام ہیں اور نہ اس مدّ میں اس رقم کے صرف کرنے کی نوبت آتی ہے۔ ہاں البتہ اپنے کفر والے معاشرے کو چھوڑ حلقہ بگوش اسلام ہونے والے نومسلموں کے تالیف القلوب ہی کی خاطر انہیں معشیتی طور مستحکم کرنے اس مد میں زکاةدی جاسکتی ہے
5) غارم سے مراد مقروض ہے یعنی اس پر اتنا جائز قرض ہو کہ اسے نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ اپنے تعیش پسندی کےلئے، قرض پر قرض لئے، سودی قرض کے بوجھ تلے دبےفی زمانہ ہم مسلمانوں کو، اپنی زکاةدی جاسکتی ہے یا نہیں، یہ علماء حق سے استفسار کا موضوع ہے
7) ابن السبیل سے مراد مسافر ہے، مسافر کے پاس اگر مال ختم ہو جائے تو اس کو بھی زکاۃ کی رقم دی جا سکتی ہے اگرچہ اس کے پاس اس کے اپنے وطن میں مال موجود ہو، لیکن وطن سے مال منگوانے کی کوئی صورت نہ ہو۔ فقط واللہ اعلم
*مجلس اصلاح و تنظیم بھٹکل جیسے، سو سالہ مرکزی ادارے میں جہاں زکاةکی کئی ایک مدات کو ملحوظ رکھتے ہوئے، سالانہ کروڑوں زکاة تقسیم کا خاطر خواہ انتظام ہے، کیا ہم اپنی زکاة کےایک کثیرحصہ کو، ایسے اداروں میں دیتے پائے جاتے ہیں یا نام نمود کے لئے، ہم سے کوئی اور زکاة ہتھیانے میں کامیاب ہوتا ہے، اس کا محاسبہ ہمیں خود کرنا ہے۔اللہ ہی ہم مسلمانوں کو اپنے مال ودولت و املاک کی پوری پوری زکاةنکالنے اور اسے صحیح مستحقین تک پہنچانے توفیق دے۔وما علینا الا البلاغ*