عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 41

ذاتی دشمنی میں بدلتا سیاسی اختلاف !

ذاتی دشمنی میں بدلتا سیاسی اختلاف !

اہل سیاست کا شیوا کبھی ایسا نہیں رہا ،جیسا کہ آج دیکھنے کو مل رہا ہے ،سیاسی جماعتیں حالات کی سنگینی سے سیکھنے کی دعوئیدار ہیں ،مگر سیاسی جماعتوں کے رویئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے کچھ بھی نہیں سیکھا ہے ،وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،وہی پرانے رویئے اپنائے جارہے ہیں،بات سیاسی اختلاف سے بہت آگے جانے لگی ہے ، ایک دوسرے کے وجود کی نفی کی باتیں کی جانے لگی ہیں،سیاسی قیادت کے لہجے کی تلخی سے دشمی کا گمان گزرنے لگا ہے ،سیاسی اختلاف ذاتی دشمنی میں بدلنے لگا ہے ،جو کہ جمہوری رویئے کے منافی اور جمہوریت کیلئے انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے ۔
یہ امر انتہائی فسوس ناک ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے کو ماننے اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے ،جبکہ جمہوریت نام ہی مخالف آرا کے وجود کو تسلیم کرنے کا ہے ،جمہوریت یک رخی ہوتی ہے نہ ہی مخالف آوازوں کو خاموش کرنے پر یقین رکھتی ہے ،لیکن یہاں جمہوریت کی دعوئیدار ہی اپنے سیاسی حریف کو مائنس کرنے پر تلے نظر آتے ہیں ،جمہوری سیاست میں کوئی کسی کے وجود کی نفی کرسکتا ہے

نہ ہی اپنی من منشاء سے سیاست سے مائنس کیا جاسکتا ہے ،یہ حق صرف عوام کو حاصل ہے کہ وہ اپنے ووٹ کے ذریعے جسے چاہیں اقتدار کے منصب پر بٹھائیں اور جسے چاہیں مسترد کر دیں ،لیکن ہمارے حکمران عوام کو حق فیصلہ دینا ہی نہیں چاہتے ہیں ،اس لیے عوام کی عدالت میں جانے سے گریزاں ہیں اور چاہتے ہیں

کہ عوام سے بالا ہی اپنے فیصلے اپنی مرضی سے کر لیے جائیں ،لیکن موجودہ تیزی سے بدلتے حالات میں ایسا کچھ بھی کرنا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔مسلم لیگ( ن)قیادت سیاسی عد استحکام دور کرنے کے بجائے ترازو کے دونوں پلڑے برابر کر نے پر بضد ہے ،وہ چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو کچھ ان کے ساتھ روا رکھا گیا ،اب ان کے مخالفین کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے، اس انتقامی رویئے کے باعث سیاسی انتشار بڑھ رہا ہے ،جو کہ ملک و جمہوریت کے مفاد میں نہیں ہے ،حکمران قیادت کو انتقامانہ رویہ ترک کرتے ہوئے آگے

بڑھنا ہو گا ، حکمران اتحاد جتنا مرضی عوام کو باور کرانے کی کوشش کرتے رہیں کہ سارے بحران سابقہ حکومت کے پیدا کردہ ہیں ،لیکن عوام پھر بھی انہیں ہی ذمہ دار ٹھرائیں گے ،اس لیے بد اعتمادی کو فضا کو ختم کرنے کیلئے حکومت ہی کو پہل کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہو گا ،ملک وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے دیئے جانے والے اشاروں کا متحمل ہو سکتا ہے نہ ہی صدر مملکت کی طرف سے وزیر اعظم کوخط اور وزیر اعظم کی جانب سے جوابی خط سے کبھی معاملات ٹھیک ہوں گے ،بلکہ اس سے تلخیاں مزید بڑھیں گی

،جیساکہ دکھائی دیے رہا ہے ۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ اس وقت اختلافات معمول کی حد سے زیادہ بڑھ چکے ہیں ، مگر یہ سمجھ لینا کہ ہمیشہ سیاسی درجہ حرارت کی ایسی ہی کیفیت رہے گی ،ایسا ہر گز نہیں ہے،سیاسی در جہ حرارت کو اعتدال پر لانا ،سیاسی قیادت کے اپنے ہی ہاتھ میں ہے ،اس سیاسی کشیدگی کی وجہ سے دنیا کی نظریں پہلے ہی پا کستان کی جانب لگی ہیں ،دنیا حیرت زدہ ہے

کہ ان حالات میں ،جبکہ ملک کی معیشت دائو پر لگی ہے ،سیاسی قیادت کا دھان کدھر ہے ،عالمی میڈیا جو پا کستانی قیادت کا تاثر پیش کررہا ہے ،اس سے پا کستانی عوام بھی باخبر ہیں ،شوشل میڈیا پر جو کہرام مچا ہے ،وہ سب ہی دیکھ رہے ہیں ، یہ عالمی سطح پر انگشت نمائی کا موقع پیدا کریں گے اور ان کے مضمرات بھی ہوں گے ،اس لیے سیاسی قیادت کیلئے سیاسی افہم و تفہیم ہی واحد راستہ ہے

،جو کہ اس بحران ظلمات میں محفو ظ راستہ ثابت ہو سکتا ہے۔اس وقت ملک کے سیاسی و معاشی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ سیاسی قیادت باہمی آویزش سے گریز کرتے ہوئے سر جوڑ کر مل بیٹھے اور ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے مشاورت کرے، سیاسی قیادت بخوبی جانتے ہیں کہ سارے مسائل کا حل مشاور سے ہی نکلے گا اورایک دن سب کو اکھٹے بیٹھنا ہی پڑے گا ،مگر اس وقت اَنا وضد آڑے آرہی ہے

،عوام سیاسی قیادت کے رویوں کو بھی دیکھ رہے ہیں اور اپنی پریشانیوں اور مصیبتوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں،عوام دیکھ رہے ہیں کہ سیاسی قیادت قومی اور عوامی مفادکے بجائے اپنے ذاتی مفادات کوزیادہ عزیز ہیں،یہ صورتحال کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی ایک رہنما کو نہیں ،بلکہ پورے جمہوری نظام کو ہی نقصان پہنچائے گی، لہٰذا سیاسی قیادت کو چاہیے کہ ذاتی ڈشمنی میں بدلتے سیاسی اختلاف سے اجتناب کرے، اس رسہ کشی کو چھوڑ کر اب افہام و تفہیم کی طرف آئے اور یہ دیکھے کہ کس طرح اس منجدھار سے ملک وعوام کوباہر نکالا جاسکتا ہے،اس وقت یہ کام مشکل ضرور ،مگر باہمی مشاورت سے آسان بنایا جاسکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں