عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 93

عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں !

عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں !

سیاست نام ہی برداشت کا، رواداری کا ہے، مگر یہ ساری باتیں سیاست میں ناپید ہوتی جارہی ہیں، ایک انجانا ساخوف حکمراں طبقے کو لاحق نظر آتا ہے کہ اگر پنجاب اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے الیکشن عام انتخابات سے پہلے ہوگئے تو کہیں تحریک انصاف قیادت کی مقبولیت کے سیلاب میں بہہ نہ جائیں، شاید انہیں اپنے اپ پر بھی یقین نہیں رہا ہے ،اس لیے ایک طرف طاقتور حلقوں کی طرف دیکھا جا رہا ہے

تو دوسری جانب الیکشن ملتوی کروانے کیلئے سارے حربے آزمائے جارہے ہیں ،ایک بار پھر معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے پاس چلا گیا ہے ،عوام نے بھی ساری اُمیدیں اپنی معزز عدلیہ سے ہی وابستہ کرلی ہیں کہ وہی ملک و عوام کے حق میں بہتر فیصلہ کریں گے ۔ملک بھر میں ایک بار پھر بے یقینی کی کیفیت طاری ہے ،سیاسی معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے ہی جارہے ہیں ،یہ ایک عام خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق تیس اپریل کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہوںجائیںگے تو سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کی کوشش کرے گا،

لیکن یہ اتحادی حکومت کو کسی صورت منظور نہیں تھا، وہ سرجوڑ کر بیٹھی اور اس نے یہ فیصلہ کیا کہ انتخابات ملتوی ہونے چاہئیں ،کیو نکہ حالات اس کے حق میں ساز گار نہیں ہیں، چنانچہ الیکشن کمیشن کواپنا فیصلہ پہنچایا گیا اور اس نے کمال تابعداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کر دیااورعذر پیش کیا گیا کہ سیکورٹی فراہم کرنے سے لے کرمالی وسائل دینے والے ریاستی ادارے تک تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،اس طرح انتخابات اب آٹھ اکتوبر کو ہوں گے،

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آٹھ اکتوبر تک ایسی کیا تبدیلی آئے گی کہ ریاستی ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون پر آمادہ ہو جائیں گے؟ملک کے حالات میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے نہ ہی ادارے تعاون کریں گے ،حکمران اتحاد پی ٹی آئی کے خوف سے نجات حاصل کیے بغیر انتخابات کرانے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں ،اس لیے عمران خان کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،جبکہ عمران خان بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ لندن پلان کے تحت کیا جارہا ہے،ملک کے حالات جوں جوں وقت گزرے گا ،

مزید بگڑتے جائیں گے ،بات ان کی بڑی حد تک درست ہے کہ حکومت ایک طرف آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑنے کے باوجود ابھی تک معاہدہ نہیں کر سکی ہے تو دوسری جانب دوست ممالک بھی تعاون کی ہامی نہیں بھررہے ہیں، جبکہ حکومت کے لچھن وہی پرانے ہیں ،حکومتی عہدیداروں میں سے کسی نے بھی اپنی مراعات رضاکارانہ طور پر چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے نہ ہی بچت سکیم پر عمل در آمد ہورہا ہے، وفاقی کابینہ کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ان کے اخراجات بھی وہی ہیں، جو کہ پہلے تھے، ایسی صورت حال میں حکمران ٹولہ آٹھ اکتوبر کوکیسے پورے ملک میں عام انتخابات کرانے پر آمادہ ہو جائیں گے؟
حکمران اتحاد کی نیت میں فتور ہے ،حکمران عوام کی عدالت میں جانا چاہتے ہیں نہ ہی اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں ،اس لیے قانون وآئین سے ماورا اقدامات کیے جارہے ہیں ،ملک شدید آئینی بحران میں مبتلا کردیا گیاہے ،جب کہ مالی بحران اور ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ، اس کے علاوہ ہے،صدر عارف علوی نے ایک خط کے ذریعے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آئین پر عمل کر کے درپیش بحران کو ٹالنے کی کوشش کریں

،قبل اس کے کہ وزیراعظم اس کا جواب دیتے، وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ نے اپنی اوقات سے بڑھ کر صدر کو شٹ اپ کال دے دی اور کہا کہ صدر اپی اوقات میں رہیں، وزیراعظم نے بھی اپنے طویل جواب میں آئین پر عمل کرنے کی یقین دہانی کے بجائے صدرکو مطعون کرنا مناسب سمجھا ہے ، اس سے ایسا لگتا ہے کہ آئین شکنی ہماری روایت بنتی جارہی ہے تو کیا ہم ایک بار پھر ماضی جیسے المیے کی طرف بڑھ رہے ہیں؟
سیاسی قیادت نے اپنے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ہے،بار بار وہی پرانی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،اس کا نقصان نہ صرف سیاستدانوں کو ہو رہا ہے ،بلکہ جمہوریت کیلئے بھی خطرات بڑھتے جارہے ہیں ،سیاسی قیادت کو ہوش کے نا خن لیتے ہوئے اپنے رویئے میں تبدیلی لانا ہو گی ،سیاسی قیادت ایک طرف آپس میں دست گریباں ہے تو دوسری جانب اداروں کو آمنے سامنے لا کھڑا کررہے ہیں ،اپنے سیاسی مفادات کے کیلئے ادروں کے اندرتقسیم پیداکی جارہی ہے ،جوکہ ملک وعوام کے مفاد کے منافی ہے

،سیاسی قیادت کو ادارتی تقسیم کے بجائے افہم تفہیم سے یکجہتی کی جانب آنا ہو گا ،لیکن یہ کام سیاسی قیادت اکیلئے نہیں کر پائیں گے ،اس کے لیے مقتدر حلقوں کو بھی سیاسی قیادت کے ساتھ سر جوڑ کر مل بیٹھنا ہوگا ،یہ ملک مزید کسی انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے ،اس لیے بہتری اسی میں ہے کہ ملک کے سارے سٹیک ہولڈر کوئی مشترکہ حکمت عملی واضح کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کریں اور عام انتخابات کی جانب بڑھا جائے ،

عوام کی عدالت میںدیر یا سویر جانا ہی پڑے گا ،کیو نکہ عوام کے اقتدار میں عوام نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ اقتدار میں کون رہے گااور کون اقتدار سے باہر جائے گا ،عوام ملک کے مفاد میں بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں،اگر آئندہ بروقت انتخابات شفاف ہوتے ہیں توملک میں استحکام‘ امن اور خوشحالی کا ایک نیا عہد شروع ہوگا !

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں