پیر کا سورج اچھی نویدلے کر نکلے گا !
ہماری سیاست الزامات تک محدود ہو کررہ گئی ہے ،سیاسی پلیٹ فارم مسائل کو مل بیٹھ کر بات چیت سے حل کرنے کیلئے بنائے جاتے ہیں ،لیکن ہماری سیاسی قیادت اپنے مسائل مل بیٹھ کر حل کرنے سے قاصر دکھائی دیتی ہے ،اس صورت حال میں پہلے مقتدر حلقے اپنا کردار اداکیا کرتے تھے ،لیکن اب سیاست میں عدم مداخلت کی پالیسی کی وجہ سے یہ پلیٹ فارم زیادہ فعال دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،ایسے میں سب کی نظر یں اعلی عدلیہ پر لگی ہیں ،اگر عدالت عظمیٰ تمام فریقین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھانے اور درپیش مسائل کے حل پر اتفاق کروانے میں کا میاب ہوجاتی ہے تو اس سے نہ صرف سیاسی استحکام آئے گا
،بلکہ ملک کی معاشی سمت بھی درست ہو جائے گی۔اس وقت الیکشن میں التوا کا معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے موجود ہے ،اس کیس میں چیف جسٹس آف پا کستان قرار دیے چکے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن میں مذاکرات ہوں تو وقفہ کرسکتے ہیں ،،ورنہ اپنا آئینی کردار ادا کریں گے ،یہسپریم کورٹ کی جانب سے درپیش بحران کو سلجھانے کا بہترین موقع اور قابل عمل راستہ ہے ،مگر حکومتی اتحاد کے مذاکرات سے انکاری کے موقف سے ایسا لگتا ہے
کہ یہ مسئلہ مذاکرات کی میز پر زیر بحث آنے کے بجائے اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں میں طول کھنچے گا اور ملک میں سیاسی بے چینی کی شدت میں اضافے کا سبب بنے گا ،سیاسی کشیدگی سے پہلے ہی معاشی حالات بد تر ہیں ،عدالتی بحران کے باعث ملک انارکی کی جانب چلا جائے گا۔ملک سیاسی انتشار کے باعث انارکی کی جانب بڑھ رہا ہے ،مگر سیاسی قیادت بگڑتے حالات کا ادرک کررہے ہیں نہ ہی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا جارہا ہے ،اگر تحریک انصاف قیادت نے مذاکرات کے اشارے دینا شروع کیے ہیں
تو پی ڈی ایم بات چیت کیلئے تیار نظر نہیں آرہی ہے ،اس کا خیال ہے کہ اگر عمران خان دوبارہ اقتدار میں آگئے تو ان کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے بدترین دور کا آغاز کریں گے،اس لئے پی ڈی ایم سمجھتی ہے کہ بات چیت ہی نہ کی جائے ،تاکہ جلد الیکشن کا موضوع زیر بحث ہی نہ آئے ،حکمران اتحاد الیکش سے راہ فرار اختیار کرنے کیلئے ایک طرف مکالمے سے انکاری ہے تو دوسری جانب عدالت عظمیٰ پربے جا اعتراضات کے ذریعے دبائوبڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
حکمران اتحاد انتخابات سے بچنے کیلئے ساری سیاسی چالیں چل رہے ہیں، عدلیہ کے پاس سیاسی شطرنج میں فریقین کی چالبازیوں کو متوازن کرنے کا کوئی پلڑاہے نہ ہی ان کے مقابل جوابی چالیں چلی جاسکتی ہیں
،اس لیے بہتر ہوگا کہ مزید ہرزہ سرائی سے بچنے کے لئے عدالت عظمیٰ کا فل بنچ بیٹھے اور آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام کے بنیادی حق رائے دہی کے استعمال کو یقینی بنائے ، اس کے لئے پوری آئینی اسکیم کو جہاں دیکھنا ہوگا ،وہیں انتخابات کے بطن سے ایک منتخب حکومت کی جگہ ایک نہ سنبھالے جانے والے سونامی کا بھی سدباب کرنا ہو گا،یہ کام صرف عدلیہ کا نہیں، سیاستدانوں کا بھی ہے ،لیکن سیاستدان ایسے آپس میں لڑرہے ہیں کہ جیسے ان کے پائوں تلے سے آئین کی سرزمین کبھی نہیں پھسلے گی، وہ یہ بھول رہے ہیں کہ سیاستدانوں کی باہمی محاذ آرائیوں میں ہی غیر سیاسی قوتوں کو نہ صرف مداخلت کا موقع ملتا ہے، بلکہ انہیں طویل عرصے تک آمریت کے آہنی شکنجے میں کس بھی دیا جاتا ہے۔
سیاسی قیادت کا وطیرہ رہا ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے وہی غلطیاں دوبارہ دہرانے میںلگے ہوئے ہیں، ایک بار پھر معاملات سیاستدانوں کے ہاتھوں سے تیزی سے نکل رہے ہیں، سیاسی بحران تو تھا ہی، معاشی بحران سے جلد نکلنے کی سبیل بھی کوئی نظر نہیں آرہی ، اوپر سے عدلیہ بھی بحران اور آئین گرداب میں پھنساچلا جا رہا ہے،اس بحرانی کیفیت سے نکلنے کاراستہ مل بیٹھ کر ہی نکالا جاسکتا ہے ،لیکن سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کوئی مل بیٹھنے کیلئے تیار ہی نہیں ہے،سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں سلجھانے کے بجائے غیر سیاسی انداز میں مزید الجھایا جارہا ہے۔
ملک بھر میں بڑھتی سیاسی محاذآرائی جو رنگ اختیار کر تی جارہی ہے، اس میں کسی کا بھی شملہ اونچا اور پگڑی محفوظ نہیں رہ پائے گی، ساری ضد و انا کوئی تیسری قوت آکر مٹی میںملادیے گی، اسلئے سیاسی قیادت کو اپنے روئیوں میں جہاں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ،وہاںادارہ جاتی سطح پر بھی معاملہ فہمی سے کام لینے کی اشدضرورت ہے،فاضل چیف جسٹس نے اسی تناظر میں ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ پیر کا سورج اچھی نوید لیکر طلوع ہوگا، خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور گھمبیر سیاسی‘ آئینی اور عدالتی مسائل میں سے قومی مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے ،بصورت دیگر منافرت بڑھے گی تو سسٹم کی مزید خرابی پر ہی منتج ہوگی ،جوکہ کسی کے مفاد میں بہتر نہیں ہے۔