اپنی جاں نذر کروں،اپنی وفا پیش کروں 34

مسائل اور توقعات

مسائل اور توقعات

جمہور کی آواز
ایم سرورصدیقی

نیاسال کیا آیاہے مسائل کا ایک انبار ہم پر آن پڑا ہے مہنگائی نے عوام کی کمرتوڑکررکھ دی ہے سیاست،معیشت اور جمہوریت زبوں حال ہے چند ماہ پہلے یہ سال تمام ہو توعہد ِ رفتہ کا ایک اور باب نہ جانے کہاں جاچھپاہے ۔معلوم نہیں ہماری عمرکا ایک سال اور کم ہوگیا یا زیادہ بہرحال تین ماہ پہلے رخصت ہونے والا سال اپنے دامن میں انتہائی تلخ یادیں لئے رخصت ہوا جو شاید ہم بھلائے بھی نہ بھول پائیں۔

گذشتہ سال انہی دنوں مولانا فضل الرحمن عمران خان حکومت کے خلاف سربکف تھے اسی طرح آج عمران خان نے غیرمتوقع بننے والی شہبازحکومت کے خلاف اعلان ِ جنگ کررکھاہے موصوف اپنی شکست تسلیم کرنے کو تیارنہیں جبکہ میاں نواز شریف ا س سال بھی وطن واپس نہ آئے اور ان کی واپس پر بھی مسلم لیگ ن سیاست کرتی رہی آج بھی میاں نوازشریف کی وطن واپسی ایک معمہ بناہوا ہے۔ چندسال قبل بھارت نے 5 اگست کو غیر قانونی یکطرفہ اقدامات کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے جبراً مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے ایک کالا قانون نافذکردیا تھا

جس پر دنیا بھر میں آج تلک بھرپور احتجاج کیاجاتاہے جب احتجاج شدت اختیارکرجائے تو گھبرا کر مودی سرکارنے مقبوضہ جموں و کشمیر میں سے مسلسل کرفیو نافذ کر دیتی ہے بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اٹھائے گئے یکطرفہ اقدامات بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے یکسر منافی ہیں۔ کشمیر کے نہتے مسلمانوں کو بھارتی بربریت سے بچانے کے لئے عالمی برادری کو اپنا مؤثر کردار ادا کرنا ۔ ملکی معیشت کے حوالہ سے عمران خان کے مخالفین کا دعویٰ ہے کہ عوام سے وعدے کرنے کے باوجود تحریک ِ انصاف کی حکومت نے IMF سے بھاری قرضہ لے کرملک کو مزید مقروض کردیا تھا مزے کی بات یہ ہے کہ جو تنقید کرتے پھررہے ہیں وہ بھیIMF سے قرضہ لینے کے لئے مرے جارہے ہیں

اور یہ سلسلہ اب تلک راز ہے یوں کشکول توڑنے کے وعدے محض وعدے بھی ثابت ہوئے اور شہباز حکومت IMF سے مذاکرات پہ مذاکرات کئے جارہی ہے جبکہ سونے اور ڈالر کی قیمتوںنے نیا عالمی ریکارڈ قائم کرڈالا جس سے مہنگائی کا طوفان آگیا ہرچیزمہنگی ہوگئی منی بجٹ میںنئے نئے ٹیکسز لگنے سے دنیا بھر کروڑوں اربوں افراد غربت کی لکیر سے بھی نیچے چلے گئے پاکستان میں امن وامان کے قیام کیلئے شروع کئے جانے والے اپریشن سے دہشت گرد اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہے ہیں

لیکن نہ جانے ان کا نیٹ ورک کتنا بڑا ہے کہ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں پھر بھی سیکورٹی فورسز پر حملوںمیں اب تلک درجنوں بے گناہ شہید ہوگئے ہیں ۔ نیب نے ملک کی درجنوںبااثر شخصیات کے گرد شکنجہ کس رکھا تھاجن میں آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، میاںشہبازشریف،حمزہ شہباز، سیدخورشید شاہ،عبدالعلیم خان،احسن اقبال،خواجہ سعدرفیق اور کئی شخصیات کا جیلوںمیں آنا جانا لگا رہا جبکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے ترامیم کے ذریعے نیب کے پر کاٹ دئیے اور اپنے رہنمائوں کے مقدمات ختم کرواکر ایک نیا عالمی ریکارڈ قائم کردیا جس کی نظیر نہیں

ملتی اور یوں آمدن سے زائد اثاثوں کے درجنوں مقدمات داخل دفتر کردئیے گئے ۔ ایک او ربات گذرتے سال میں قوم کو مہنگائی ،دہشت گردی اور لوڈشیڈنگ سے نجات نہیں ملی اب تو اس سال میں سوئی گیس اور بجلی کی قیمتیں بڑھا ئی جا چکی ہیں اور نہ جانے کتنی بار اس میں اضافہ ہوتا جائے گا کوئی نہیں جانتا جس سے عام آدمی کے لئے مشکلات میں اضافہ ہی ہوگا۔ان تمام واقعات کے باوجود ہمیں اللہ کی ذات ِ بابرکات بہت سے امیدیں وابستہ ہیںکسی سے امیدیں وابستہ کرنا اچھی بات ہے بس حکمرانوںسے امیدیں باندھ لینا اسے خوش فہمی بھی کہا جا سکتاہے ۔ کہا جاتاہے کہ امید گھپ ٹوپ اندھیرے میں چمکتے ہوئے

جگنوئوںکی مانند ہوتی ہیں پاکستان بنانے کا خواب بھی ایک امید تھی جو اللہ کے فضل سے یوری ہوئی اب اس وطن کو پر امن ، خوشحال اور ہر لحاظ سے مضبوط اور مستحکم بنانے کا خواب ہماری جاگتی آنکھیں اکثر دیکھتی رہتی ہیں اللہ کرے یہ خواب بھی شرمندہ ٔ تعبیرہو۔۔۔۔ایک خواب ہے اس ملک سے عوام کی محرومیاں دو رہوں اس مملکت ِ خدادادکو کوئی ایسا حکمران مل جائے جو قوم کی محرومیاں اور مایوسیاں دور کرنے کیلئے اقدامات کرے یہاںکی اشرافیہ اپنے ہر ہم وطن کو اپنے جیسا سمجھے کیونکہ یہ بات طے ہے

پاکستان کو جتنا نقصان یہاں بسنے والی اشرافیہ نے پہنچایاہے کسی دشمن نے نہیں پہنچایا ہوگا پاکستان کے تمام مسائل اور عوام کی محرومیوںکے یہی ذمہ دارہیں یہ ان لوگوںنے اس ملک کو کبھی سونے کا انڈہ دینے والی مرغی سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔۔۔اب دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں۔۔ ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں ۔اللہ خیر کرے ہمیں اس بات کا بھی قلق ہے کہ پاکستان کو اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کہیںفرقہ واریت،لسانی جھگڑے معمول بن گئے ہیں

کہیں جمہوریت۔۔۔کہیں خلافت اور کہیں اسلام کے نام پراپنے ہم مذہب بھائیوںکے گلے کاٹے جارہے ہیں ۔۔۔ کہیںمعاشی استحصال ہورہاہے یاان کے حقوق غصب کئے جاتے ہیں خودکش حملے، بم دھماکے،ٹارگٹ کلنگ ایک الگ مسائل ہیں جنہوںنے پوری قوم کا جینا حرام کررکھاہے ا س میں کوئی شک نہیں پاکستان کو اللہ نے بے شمار وسائل سے نوازاہے لیکن یہ دولت فلاح ِ انسانیت کیلئے خرچ ہونی چاہیے ۔۔۔عوام کی حالت بہتربنانے پر صرف کی جانی چاہیے۔۔غربت کے خاتمہ کیلئے منصوبہ بندی کیلئے ٹھوس اقدامات متقاضی ہیں جرم، ناانصافی اور سماجی برائیوں کے قلع قمع کے لئے کام کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے

۔ پو ری دنیا میںشاید سب سے زیادہ پروٹوکول پاکستانی حکمرانوںکاہے جن کی آمدورفت کے موقعہ پر گھنٹوں ٹریفک جام رکھنا عام سی بات ہے اس دوران ایمبو لینسوںمیںمریضوںکی موت واقع ہو جائے،طالبعلم کو تعلیمی داروں اور ملازمین کودفاتر سے دیر بھی ہو جائے تو حکمرانوںکی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اب حکومت کی مفت آٹا سکیم نے عوام کو دلیل ورسوا کررکھ دیاہے اب تلک درجن سے زائدپاکستانی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اللہ ان ناقبت اندیش حکمرانوں کو عقل کے ناخن دے جنہوں نے عوام کی زنگیاں جہنم بنا کررکھ دی ہیں ۔ہماری اشرافیہ نے ان کے مقدرمیں محرومیاں اور مایوسیاں لکھ دی ہیں

اور جب مایوسیاں حدسے زیادہ بڑھ جائیں انسان کو اپنی ذات سے بھی محبت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس ملک میں امیر امیر تر ،غریب غریب ترین ہوتا جارہا ہے دعا ہے کہ یہ نظام بھی بدلنا چاہیے ۔۔ہم پاکستانی ایک ملک میں رہنے کے باوجودمگر آج بھی سندھی ،بلوچی،پٹھان اور پنجابی کی تفریق سے باہر نہیں نکلے۔۔۔پاکستان کا آج جو بھی حال ہے اس کیلئے حکمران۔اشرافیہ،قوم پرست،کرپٹ سب ذمہ دارہیں ہمیں اس خول سے باہر نکلناہوگا۔اب دل میں پھر حسرتیں امڈ آئی ہیں۔۔۔ امیدیں جاگ اٹھی ہیں، ترقی و خوشحالی کی خواہشات انگڑائیاں لے رہی ہیں خداکرے جو مسائل ملک وقوم کو گذشتہ سالوںمیں درپیش تھے وہ سال ِ نومیں نہ ہوں اورہمارے ہونٹوںپر یہ دعا مچلتی رہے کوئی’’ضبط‘‘ دے نہ’’جلال‘‘ دے

مجھے صرف اتنا ’’کمال‘‘ دے
میں ہر ایک کی ’’صدا‘‘ بنوں
کہ’’زمانہ‘‘ میری’’مثال‘‘ دے
تیری ’’رحمتوں‘‘ کا ’’نزول‘‘ ہو
میری ’’محنتوں‘‘ کا ’’صلہ‘‘ ملے
مجھے’’مال وزر‘‘ کی ’’ہوس‘‘ نہ ہو
مجھے بس تو ’’رزقِ حلال‘‘ دے
میرے’’ذہن‘‘ میں تیری ’’فکر‘‘ ہو
میری ’’سانس ‘‘ میں تیرا ’’ذکر‘‘ ہو
تیرا ’’خوف‘‘ میری ’’نجات‘‘ ہو
سبھی’’خوف‘‘ دل سے نکال دے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں