عوام بہتر فیصلہ کرنے والے ہیں ! 48

مفادات کے تصادم کا خمیازہ !

مفادات کے تصادم کا خمیازہ !

ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے پنجاب میں انتخابات کرانے کا فیصلہ تو دے دیا ہے، لیکن اس فیصلے پر حکومت کسی صورت عمل درآمد کے حق میں نہیں ہے، حکومت انتخابات میںالتوا کیلئے مختلف حربے آزمانے میں لگی ہوئی ہے، و فاقی کابینہ نے جہاں فیصلہ مسترد کیے جانے کی منظوری دی ہے ،وہیں ر عدلیہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ بھی کسی کی بات سننے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی ہے، ملک کے سبھی ادارے اپنی ہی طاقت کے نشے میں اتنے گم ہیں کہ انہیں اِس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے

کہ ملک کس دوراہے پر کھڑا ہے، خطرے کا سائرن مسلسل بج رہا ہے ،لیکن اربابِ اختیار اِسے سننے کے روا دار ہی نہیں ہورہے ہیں،اِس وقت ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے ذاتی مفادات قومی مفاد سے زیادہ اہم ہوچکے ہیںاور کوئی قومی مفادپر اپنے ذاتی مفادات قربان کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔
اس وقت ملک نازک نہیں ،بلکہ خطرناک صورتحال سے دوچار ہے، لیکن مجال ہے کہ اس پر کوئی غور فکر کرے ،سب اپنے مفادات کے حصول کے لئے اندھے ہوچکے ہیں، پورا ملک شدید تنائو کا شکار ہے،معاشی صورتحال دگرگوں ہے ،

قوم میں مایوسی پھیل رہی ہے،حکومتی مشینری اور کاروباری حلقوں میں بے یقینی کی کیفیت ہے، مہنگائی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے ، اس پر قابو پانے کے لیے حکومت کوئی اقدامات کررہی ہے نہ مہنگائی کنٹرول کرنا ترجیح میں شامل ہے،اتحادی حکومت کی ترجیح صرف اقتدار میں رہنا ہے اور اس کیلئے سب کچھ ہی دائو پر لگانے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں۔حکمران اتحاد کے سب دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،اتحادی حکومت کی حالت اتنی بری ہو چکی ہے کہ اسے الیکشن کے نام سے ہی خوف آتا ہے،

کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہان کی ناقص کار کردگی کے باعث عوام ان سے بدظن ہو چکے ہیں ،حکمران اتحاد اب سارا زور اس بات پر لگارہے ہیں کہ کسی بھی طرح سے الیکشن روکا جائے، تاکہ عوام کے سامنے جانے سے بچا جا سکے، اتحادی حکومت میں اتنی سیاسی طاقت ہے نہ ہی اتنی جرأت کہ الیکشن سے راہ فرار اختیار کر سکے ،اس لیے مقتدرہ کی سپورٹ حاصل کی جارہی ہے ،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی اپنے حصول مفاد کیلئے مقتدرہ کے مرہون منت دکھائی دیتے ہیں، سیاسی جماعتیں جب اپنے فیصلے آپ نہیں کریں گی تو ان کا حال بھی ایسا ہی ہوگا، اقتدار کی سیاست جب جڑ پکڑ لے گی تو اس کے بھیانک نتائج کی ذمہ داری بھی اٹھانی پڑے گی اور اس کا سارا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا۔
اگر دیکھا جائے توملک کے بدتر حالات کی ذمہ دار سیاسی قیادت ہے،لیکن سیاسی قیادت ماننے کیلئے تیار ہے نہ ہی اپنے روئیے میں کوئی تبدیلی لارہی ہے ، اس غیر جمہوری رویئے کے باعث کل بھی نقصان اُٹھا یا ،آج بھی نقصان ہی اُٹھائیں گے ، اس لیے سنجیدہ حلقے ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ سیاسی قوتیں ایک جگہ مل بیٹھیں اور ملک کو درپیش مسائل کا کوئی مشترکہ حل نکالیں،اس وقت تقسیم کچھ زیادہ بھی نہیں ہے ،

ایک طرف تمام سیاسی جماعتیں ہیں اور دوسری طرف تحریک انصاف ہے،کیا ان دونوں کے درمیان واقعی کوئی ایسا تنازعہ بھی نہیںہے کہ جسے حل نہ کیا جاسکے ،تحریک انصاف کا مطالبہ انتخابات کا انعقاد ہے، ایک الیکشن کی تاریخ کے مسئلے پر پورے نظام کو داؤ پر لگایادیا ہے، کیا اس نکتے کو مذاکرات کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا؟اس پر اب سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ چکاہے، اس فیصلے کو نہ ماننے کی ضدہے کہ جس نے پورے نظام کو ہی خطرات میں ڈال ہے۔ایک طرف تحریکِ انصاف سپریم کورٹ کے حکم پر یوم تشکر اور جشن منا رہی ہے اور دوسری طرف حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرنے کے لئے پارلیمینٹ سے قرار دادیں منظور کرا رہی ہے۔،یہ سب کچھ اس بات کو ظاہر کرتا ہے

کہ ہمارے سیاستدان ملک کو درپیش چیلنجوں سے بالکل لا تعلق ہو کر ایک ایسی روش پر چل رہے ہیں کہ جس میں خودغرضی کا رنگ نمایاں دکھائی دیتا ہے، لا محالہ اس سورتحال میں سوال اْبھرتا ہے کہ جن خطرات کو ایک عام آدمی بھی محسوس کر رہا ہے کیا ہمارے سیاستدان ان سے بے خبر ہیں یا پھر جھوٹی انا،ضد اور مفادات نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس کے باعث وہ اپنی ذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکے ہیں،

اِس وقت سب کیلئے ذاتی مفاد قومی مفاد سے زیادہ عزیز دکھائی دیے رہاہے،معاشی ابتری اور سیاسی عدم استحکام تو تھا ہی اب اداروں کے درمیان طبل ِ جنگ بھی بجتا نظر آ رہا ہے ،لیکن افسوس اِس بات کا ہے کہ اِس جنگ میں کوئی بھی جیتے، کوئی بھی ہارے، خمیازہ سب کو ہی بھگتنا پڑ ے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں