52

ڈی آئی خان / ٹانک میں ہوئی حالیہ مردم شماری

ڈی آئی خان / ٹانک میں ہوئی حالیہ مردم شماری

تحریر، “داور خان کنڈی”
سابق ممبر قومی اسمبلی،،

ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن خیبر پختونخواہ کے انتہاٸی پسماندہ (جنوبی اضلاع) ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے 2 اضلاع پر مشتمل ہے۔ 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی 16 لاکھ 93 ہزار 688 نفوس پر مشتمل تھی جبکہ رقبہ 3604 مربع میل ہے۔ اس ضلع سے قومی اسمبلی کی 2 جبکہ صوباٸی اسمبلی کی 5 نشستیں ہیں۔ فرنٹیٸر ریجن کی شمولیت کے بعد اس ضلع کی 6 تحصیلیں (پہاڑپور، کلاچی، ڈیرہ اسماعیل خان، پروآ، درابن اور درازندہ) شامل ہیں۔
2017 کی مردم شماری ہی کیمطابق ضلع ٹانک کی کل آبادی 4 لاکھ 27 ہزار 44 نفوس پر مشتمل تھی۔ قومی اسمبلی کی ایک جبکہ صوباٸی اسمبلی کی بھی ایک نشست تھی۔ اس ضلع کی فاٹا انضمام کے بعد 2 تحصیلیں (ٹانک اور جنڈولہ) بن گئی ہیں اب آتے ہیں حالیہ ڈیجیٹل مردم شماری 2023 کے ابتداٸی نتاٸج کیجانب جس کیمطابق ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی لگ بھگ 16 لاکھ ظاہر کی جارہی ہے۔ گویا بظاہر 2017 سے 2023 تک ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی میں کوٸی اضافہ نہیں ہوا، جبکہ۔۔۔
ضلع ٹانک کی آبادی نٸی مردم شماری کیمطابق 5 سال بعد سکڑ کر 3 لاکھ 40 ہزار کے قریب رہ گٸی ہے۔ جبکہ اگر آبادی کا تناسب دیکھا جاۓ تو 2017 کی مردم شماری کے بعد آج ڈیرہ اسماعیل خان کی آبادی میں 2 لاکھ 50 ہزار اور ٹانک کی آبادی 1لاکھ 20 ہزار کااضافہ ہونا چاہیٸے تھا۔
اس خلاصے کے بعد آتے ہیں حالات و وجوہات کی طرف، ہمارے ان 2 اضلاع کیساتھ سابقہ فاٹا یا قباٸلی علاقہ ہے، جنکی تہذیب، ثقافت،

رہاٸش، کاروبار و روزگار، تعلیم، علاج معالجہ حتیٰ کہ رشتہ داریاں تک ضلع ٹانک اور ڈیرہ کے بندوبستی اور مقامی لوگوں کیساتھ شریک ہیں۔آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد میں یہی 2 اضلاع ہجرت کرکے آنیوالے قباٸلی بھاٸیوں کے مہمان اضلاع ٹھہرے تھے۔ ایک طویل عرصے تک یہاں کے ہسپتال، تعلیمی ادارے، زمینیں، بازار ، کاروبار اور بنیادی انفراسٹرکچر انکے استعمال میں رہا۔ اور مقامی لوگوں نے انتہاٸی تحمل اور کھلے دل سے انہیں خوش آمدید کہا۔۔۔۔ لیکن حالیہ 2023 کی مردم شماری میں شمالی اور جنوبی

وزرستان (سابقہ فاٹا) سے تعلق رکھنے والے بھاٸیوں نے ایک سوچے سمجھے اور منظم طریقے سے ڈیرہ اور ٹانک میں مستقل رہاٸش رکھنے اور بنیادی وساٸل کے استعمال کے باوجود اپنی مردم شماری اپنے آباٸی علاقوں میں کرواٸی ہے۔ تو وہاں کی آبادی جو 2017 کی مردم شماری کیمطابق 6 لاکھ 50 ہزار نفوس پر مشتمل تھی وہ ابادی اب فزیکلی لوگ موجود نہ ہونے کے باوجود 2023 میں بڑھکر 9 لاکھ 50 ہزار ہوجاٸیگی۔
اب جب اس مردم شماری کے حتمی نتاٸج سامنے آٸیں گے تو ڈیرہ اور ٹانک کو جہاں قومی وساٸل کی تقسیم میں سے حصہ کم ملیگا وہیں ان دونوں اضلاع میں صوباٸی اسمبلی کی ایک ایک نشست کم ہونیکا خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ملک میں مروجہ اصول کیمطابق نٸے اضلاع، تحاصیل اور یونین کونسل کے قیام سے لیکر گندم کے کوٹے،

وفاقی سرکاری ملازمتوں، بینظیر انکم سپورٹ اور دیگر بہت سے اہم قومی فیصلے جب آبادی کی تناسب سے ہونگے تو اس کا خمیازہ یہی 2 اضلاع جو پہلے ہی انتہاٸی پسماندگی اور کٸی عشروں سے دہشتگردی کے شکار ہیں، بھگتیں گے۔
2023 کی آبادی کے حوالے سے ہماری تحفظاط علاقاٸی یا لسانی ہرگز نہیں، انتظامی طور پر ہمارے یہ 2 اضلاع اپنے حقوق سے محروم ہورہے ہیں۔ بطور عوامی اور سیاسی نماٸیندہ انسانی اور علاقاٸی مفاد کیخاطر آواز بلند کرنا اپنافرض سمجھتے ہیں۔
تمام قباٸلی بلاتفریق ہمارے بھاٸی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس قومی دھارے میں جہاں مستقل ہمارے ساتھ مقیم اور رہاٸش پذیر ہیں، اپنی مردم شماری بھی ہمارے ساتھ ریکارڈ کرواٸیں۔
مجھے امید ہے ہماری ان معروضات پر فراخدلی کیساتھ غور کیا جاٸیگا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں