عالمی سطح پربنتےبگڑتے رشتے،امن عالم قائم رکھنے، ممد و مددگار ہوسکتے ہیں 85

تلمیذ و استاد کے درمیان رشتہ محبت ھند و پاک سرحدوں کو بھی مات دے دیتی ہے

تلمیذ و استاد کے درمیان رشتہ محبت ھند و پاک سرحدوں کو بھی مات دے دیتی ہے

تبصرہ وتجزیہ تحریر:
باسل کیپا بھٹکلی کراچی سے

استاد محترم سید عبدالرحمن باطن عرف عام باطن ماسٹر کے سعودی عربیہ پاکستان ایمبیسی اسکول کے ایک طالب علم کے، آپ کی رحلت پر جذبا. ابن بھٹکلی

باسم الحى الذى لا يموت۔۔۔۔
باطن ماسٹر اب ہمارے بیچ نھیں رہے!!!
(انا لله وانا اليه راجعون)

آه استاد محترم آپ کى جدائی کا غم!!!

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔اک شخص سارے شھر کو ویران کر گیا۔

وہی بزم ہے وہی دھوم ہے ، وہی عاشقوں کا ہجوم ہے۔
ہے کمی تو بس اسی چاند کی جو تہہ مزار چلا گیا۔

باطن ماسٹر کے نام ساتھ (مرحوم) لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آرہا ہے۔۔

استاد اور شاگرد کا احترام اور شفقت سے بھرپور رشتہ۔

شھر بھٹکل کے معروف ومشھور استاد وشاعر مرحوم سید عبدالرحمن باطن اور ان کے شاگرد باسل کیپا بھٹکلی کے محترمانہ ومؤدبانہ تعلقات پر مختصر
————-
(يرفعِ الله الَّذين آمنوا منكم والَّذين أوتوا العِلمَ درجاتٍ)

استاد سید عبدالرحمن باطن میرے لئے ان قابل قدر اساتذہ میں سے ایک ہیں جن سے میں نے اردو ادب سیکھا ہے، بلکہ یہ کھنا بالکل درست ہوگا کہ میں نے اردو ادب کی ابتدا ہی انھی کی شاگردی میں حاصل کی ہے، وہ ہمارے شھر بھٹکل کے معروف ومشھور شاعر بھی تھے، رفتہ رفتہ میں بھی اپنے استاد کے شاعرانہ انداز وادبی ذوق کو اپنے اندر جذب کرلیا، شاید اسی وجہ سے مجھے شاعر حضرات سے خاصہ لگاو ہے۔
ہندوستان اور خلیجی ممالک کے کئی شھروں میں بحیثیت استاد رہے اور کئی عرصہ تک خدمات سرانجام دیتے رہے خصوصاً الخبر میں پاکستانی سکول اور انجمن حامئی مسلمین بھٹکل سے مربوط رہے، وہ ہمارے شھر بھٹکل کا قیمتی ادبی اثاثہ وقومی سرمایہ تھے، اور ہم بھٹکل والوں کے لئی باعث افتخار تھے، بر صغیر کے اکثر وبیشتر ممالک میں اُن کے شاگردوں کی کثیر تعداد موجود ہیں جس میں بھٹکل کے مشھور شخصیات بھی شامل ہیں

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے۔استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے۔

علمائے حق نبوت کے ورثہ دار ہوتے ہیں،جس کی واضح دلیل ہے (العلماء ورثة الانبیاء) ہے۔
استاد عبدالرحمن باطن کی استادانہ اور معلمانہ زندگی قابل غور ہی نھیں بلکہ لائق تقلید بھی ہے، وہ اپنے شاگردوں کو صرف نصاب کی کتابیں پڑھانے پر اکتفا نھیں کرتے بلکہ ان کی اخلاقی تربیت کی ذمہ داری بھی ادا کرتے تھے، معاشرے کی ضرورتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے پیش نظر صحیح طریقۂ کار اور اقدامات کی توضیح و تشریح فرماتے تھے۔

انسان کی درسگاہِ اوّل اس کی ماں کی گود ہے جھاں وہ پھلا لفظ ادا کرنا سیکھتا ہے اور پھر تربیت کے مراحل طے کرتا ہے، پھر ماں ہی اس بچے کو زمانے کی گرم و سرد سے مانوس کرنے کے لئے اپنے لختِ جگر کو استاد کے حوالہ کر دیتی ہے،
الطاف حسین حالی کا یہ مصرعے سو فیصد درست ہیں:
ماں باپ اور استاد سب ہیں خدا کی رحمت۔
ہے روک ٹوک ان کی حق میں تمہارے نعمت۔

استاد سید عبدالرحمن باطن میں یہ فن موجود تھے کہ وہ لوہے کو تپا کر کندن اور پتھر کو تراش کر ہیرا بنا دیتے تھے، مجھے انھوں نے علم کے میدان میں روحانی اور اخلاقی تربیت سے زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں تک پھنچا دیا۔

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مھک۔
ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں۔
کسی بھی انسان کی کامیابی کے پیچھے اچھے استاد کی بھترین تربیت کار فرما ہوتی ہے، خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جن کی زندگی میں اچھے استاد میسر آ جاتے ہیں، انسان دنیا میں کبھی بھی تنھا وقت نہیں گزار سکتا وہ کئی رشتوں ناتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے، ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خون کے ہوتے ہیں جبکہ بھت سے رشتے اور تعلق روحانی اخلاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں، ان میں ایک رشتہ استاد کا بھی ہے،

اساتذہ کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ ہمارے اساتذہ کرام ہیں کیونکہ استاذہ ہی ہیں جو دنیا میں جینا اور رھنا سکھاتے ہیں اور کتابوں کا علم سمجھنے میں مدد دیتے ہیں، اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہیں۔

نوے کی دہائی میں عید الفطر کے موقع پر شھر الخبر میں ہمارے (کیپا گھر) پر ہمیشہ محفل سجتی تھی جس میں استاد عبدالرحمن باطن کا ترنم سے اشعار پڑھنا اور تقریر کرنا آج بھی وہ یادیں میرے ذھن میں تازہ ہیں، اللہ کے نام سے محفل شروع کرنے کے بعد رفتہ رفتہ اس میں دلچسپی پیدا کر لیتے تھے اور خاتمہ بھت پرلطف ہوتا تھا، اُن میں تحریری وتقریری فن بھت عمدہ تھے، اور سامعین کو اپنی جانب متوجہ کرنے کا ان میں ایک عجیب ہنر تھا، وہ موزونیت، اعتمادیت اور عملیت جیسی خوبیوں کے مالک تھے، اور تشریح ، استحسانِ شعر، انشا پردازی کے تمام مھارتوں کی پیمائش موجود تھے، انکی یہ قابلیت اور صلاحیتیں زندگی کے کئی مقامات پر ان کی معاون و مددگار بھی ثابت ہوئی۔

میرے استاد سید عبدالرحمن باطن کی خاص توجہ اِن نقاط پر مرکوز تھی۔
اردو کی اہمیت، اردو بولنے کی رفتار واندازِ گفتگو، حاضر جوابی، سلیس اور واضح اسلوب، درست تلفّظ وروانی، اردو زبان سے فطری لگاؤ ،اردو ذخیرہ الفاظ کا استعمال، اردو قواعد پرقدرت اور جذبات وخیالات کی گھرائی، حافظے کی صلاحیت، وغیرہ شامل ہیں،
اسی سے اُن کی لسانی نشو ونما، لسانی شعور، لسانی مہارت، اردو زبان کی طرف ان کے فطری رجحانات نیز زبان اردو کے بارے میں ان کے ذُولسانی تصوّرات کا اندازہ ہوتا ہے۔

بارگاہ رب العزت میں انتھائی عاجزانہ دعاء ہے کہ اللہ تعالیٰ استاد محترم کو ان کی خدمات کا بھترین بدلہ عطاء فرمائے اور ان کے گھر والوں‌ کو صبر جمیل عطا فرمائے آمین۔۔۔۔

تیرے بنا اے ساقیا ایسی ہے زندگی۔
خالی ہے اپنا جام پیے جا رہا ہوں ميں۔

الوداع ماسٹر صاحب!!!

امام شافعی رحمہ اللہ کے ان ابیات کہ ساتھ میں اپنے تبصرے کا اختتام کرتا ہوں۔

اصبر على مرِّ الجفا من معلمٍ۔
فإنَّ رسوبَ العلمِ في نفراتهِ –
ومنْ لم يذق مرَّ التعلمِ ساعة ً-
تجرَّعَ نلَّ الجهل طولَ حياته –
ومن فاتهُ التَّعليمُ وقتَ شبابهِ –
فكبِّر عليه أربعاً لوفاته – وَذَاتُ الْفَتَى واللَّهِ بالْعِلْمِ وَالتُّقَى –
إذا لم يكونا لا اعتبار لذاتهِ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں