مذاکرات سے ہی مفاہمت کی راہ نکلے گی!
اقوام عالم کی تاریخ تنازعات سے بھری پڑی ہے ، دنیا میںکوئی قوم بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ انہوں نے تنازعات سے نکلے بغیر ترقی کی منازل طے کی ہیں ،انہوں نے مشکلات سے سبق سیکھا اور اپنی غلطیوں کو نہ دہرانے کا عزم کرکے ترقی یافتہ اقوام کہلاتی ہیں ،اس کے برعکس ہم نے تاریخ سے کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ، ہم پر جب بھی مشکل حالات آتے ہیں تو ہم ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل کرتے ہیں ،اس لیے جہاں پر ہوتے ہیں ،وہاں سے بھی دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں ،یہ ہی کچھ کل ہو رہا تھا ،یہ ہی کچھ آج بھی ہو رہا ہے ،لیکن ہم خود کو بدلنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔
یہ کتنی عجب بات ہے کہ دنیا آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور ہمارا سفر پیچھے کی جانب ہے ،اس کا کسی کو احساس ہے نہ ہی کوئی ادراک کررہا ہے ،یہاں سب ہی قومی مفاد بھول کر ذاتی مفاد ات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ،یہ ذاتی حصول مفادات کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک دوسرے سے دست گریباں ہیں اور کوئی بھی فریق پسپائی اختیار کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیے رہا ہے ، اس دوران ہونے والی مصالحتی کائوشوں میں بھی کچھ زیادہ پیش رفت ہوتی دیکھائی نہیں دیے رہی ہے،ایک طرف مذاکرات کا شور ہے
تو دوسری جانب ایک دوسرے کے کلاف بیان بازی اپنے عروج پر ہے، پی ٹی آئی کے رہنمافواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخاب عدالتی حکم کے مطابق ہی ہوں گے،جبکہ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف قیادت جتنا مرضی زور لگالے14 مئی کو انتخابات نہیں ہوں گے، یہ دونوں جانب سے جاری بیان بازی ساری مصالحتی کوششوںکا جنازہ نکال رہی ہے۔
ملک میں جاری محاذآرائی میں کوئی کمی آرہی ہے نہ مصالحتی کائوشیں کامیاب ہوتی دکھائی دیے رہی ہیں ، سیاسی قیادت قومی مفاد میں مذاکرات کی زبانی کلامی باتیں تو بہت کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر اپنے مفادات سے پیچھے ہٹنے کیلئے تیار نہیں ہیں ،ایک طرف دونو ںجانب سے مذاکرات کیلئے اپنے نمائندے منتخب کردیے گئے ہیں ،مگر خو ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کیلئے ابھی تک تیار نہیں ہیں ،اس رویئے کے ساتھ مذاکرات کیسے ہوں گے اور مصالحت کی بیل کیسے منڈھر چڑھے گی ، ،تاہم امیر جماعت اسلامی بہت پر اُمید دکھائی دیتے ہیں کہ اُن کی مصالحتی کائوشیں رنگ لائیں گی اور سیاسی قیادت قومی مفاد کے پیش نظر مذاکرات کے ذریعے سیاسی بحران سے نکلنے میں کا میاب ہوجائیں گے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے دونوں بڑی پارٹیوں کو کسی حدتک مذا کرات پر رضی تو کرلیا ہے ،لیکن ان سے یہ بھی منوائیں کہ جب تک آل پارٹیز کانفرنس کے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں، اس وقت تک اختلافی بیان بازی بند رکھی جائے ،اس وقت سارا جھگڑا ہی الیکشن کے انعقاد پر ہے، اگرفواد چوہدری اور رانا ثنا دو ٹوک اپنے فیصلے سناتے رہیں گے تو مذاکرات کے لیے فضاء بنے گی نہ ہی کوئی مذاکرات کیلئے بیٹھے گا
،اگر بیٹھ بھی گئے تو دل پھٹے ہوئے ہوں گے ،اس لیے پہلے قدم کے طور پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی بند ہونی چاہئے ،لیکن ایسا لگتا ہے کہ جیسے پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم کو اب بھی مقتدرہ سے ہی امید ہے کہ وہ ان کی مرضی کا سیٹ اپ بنا کر دیں گے، جبکہ وہ چاروں اطراف کھیل رہے ہیں، اگر سیاسی قیادت کا رویہ ایسا ہی رہا تو پھرکولہو کے بیل کی طرح چکر ہی کاٹتے رہ جائیںگے،کبھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔
اس صورتحال میںجب کہ سیاسی قیادت مارنے،مر جانے پر تلی ہوئی ہے، جماعت اسلامی قیادت کی مفاہمانہ کوششیں قابل قدر ہیں،سیاسی بحران کے خاتمے کیلئے کل جماعتی کانفرنس بھی بلائی جارہی ہے ،لیکن سیاسی دھینگا مشتی کی شدت کے سبب ایسی کانفرنس کے نتیجہ خیز ہونے کا امکان زیادہ روشن نہیںہے،ہر کوئی مذاکرات کیلئے اپنی شرائط رکھ رہا ہے،کوئی بلا شرائط مذاکرات پر آمادہ ہے نہ ہی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹ رہا ہے
،اس صورتحال میں تبدیلی یا فریقین کے رویے کو برف پگھلنے جیسی کیفیت قرار دینا محال ہوگا، یہ برف ایسے کبھی نہیں پگھلے گی ،یہ تبھی پگھلے گی کہ جب فریقین اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کے بجائے ملک کے مجموعی مفاد کو مدنظررکھیں گے اور مذاکرات اور افہام و تفہیم سے باہمی اختلافات دور کرنے کی کوئی راہ نکالیں گے،مذاکرات سے نفرت کی دیور گرے گی اور مفاہمت کی راہ بھی ہموار ہو گی