درست راستے کا انتخاب ! 83

ملک نازک موڑ سے گزر رہاہے !

ملک نازک موڑ سے گزر رہاہے !

ملک انتہائی نازک دور سے گزرہا تھا کہ جب اتحادی بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئے کہ ہم سب کچھ درست کردیں گے ،لیکن سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،اتحادی سال بھر دور ہی کوششیں کرتے رہے ہیں، ایک عمران خان کے گرد گھیرا تنگ کرنا اور دوسراآئی ایم ایف سے قرض لینا ،لیکن دونوں میں ہی بری طرح ناکام رہے ہیں، حکومت کی جانب سے ہر ہفتے قرض ملنے کی اُمید دلائی جاتی ہے

اور ہر ہفتے نئے مسائل سامنے آجاتے ہیں،حکومت مسلسل دعوے کیے جارہی ہے لیکن کوئی دعویٰ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، حکومت اور اپوزیشن کی ساری قوت ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور گرانے میں لگی ہے، لیکن اس سیاسی لڑائی میں ملکی معیشت اور عوام ہی تباہی کے گڑھے میں گرتے جا رہے ہیں۔
حکمران اتحاد کو عوام سے زیادہ اپنے اقتدار میں رہنے کی فکر کھائے جارہی ہے ،اقتدار میں رہنے کیلئے جہاں آئین و قانون توڑا جارہا ہے ،وہیں خود کو بچانے کیلئے اداروں کے پیچھے چھپا جارہا ہے ،اپنے مفادات کی لڑائی میں اداروں کو بھی ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا گیاہے ،یہ صورتحال ملک کیلئے انتہائی تشویش ناک ہے ،لیکن سیاسی قیادت کو ادارک ہے نہ ہی احساس کیا جارہا ہے کہ ملک کو جس دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے ،اس سے آگے ماسوائے تباہی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا ۔
ملک ایک بار پھر نازک دور سے گذر رہا ہے، ملک کب نازک دور سے باہر نکلا ہے ، کبھی کوئی نجات دہندہ کہتا ہے کہ اس نازک دور سے میں نکالوں گا تو کبھی کوئی سیاستدان کہتا ہے ملک کا خالی خزانہ میں بھروںگا، اس ملک کو کسی نجات دہندے نے نازک دور سے نکالا نہ ہی کسی سیاستدان نے اب تک خالی خزانہ بھرا ہے

،اس ملک میں جس کا جتنا دائو لگا ،اس نے لگایا ہے اور اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے ،اس حمام میں سارے ننگے سارے ہی گندے ہیں ، ایک دوسرے پر کوئی انگلی اُٹھا سکتا ہے نہ ہی کسی کو انصاف کے کٹہرے میں لایاجاسکتا ہے ، یہاں ہر کوئی کسی مافیا کا حصہ ہے یا اس کے پیچھے کوئی طاقتور مافیا کھڑا ہے ،اس مافیاسے ٹکرانا اور اس کا مقابلہ کرنا، آسان کام نہیںہے۔
اس ملک میں ادارے اور عوام ان مافیاز کے سامنے کل بھی بے بس تھے ،آج بھی یر غمال دکھائی دیتے ہیں ،

انہوں ایک طرف سیاسی و معاشی عدم استحکام پیدا کررکھا ہے تو دوسری جانب معاشرے میں انتہادرجے کی تقسیم پیدا کردی ہے ،عدلیہ تقسیم ہو چکی ہے، وکیلوں کے دو گروپ بنے ہوئے ہیں،پارلیمان بھی تقسیم کا شکار ہے، آدھی پارلیمنٹ گھر بیٹھی ہے اور آدھی کے جو دل میں آئے قوانین بنا رہی ہے ،اس حکومت کے پورے ایک سال میں کوئی قانون سازی ایسی نہیں ہوئی ہے کہ جس کا عوام کو کوئی فائدہ ہوا ہے

،نیب کے قانون میں ترمیم سے لے کر عدلیہ کے قانون تک سب کا فائدہ حکومتی نمائندے اُٹھانے میںلگے ہیں ،جبکہ عوام کبھی بڑھتی مہنگائی سے اور کبھی حصول مفت آٹاسکیم میں بے موت مررہے ہیں ۔
عوام بے موت مررہے ہیں ،لیکن حکمران عوام کا خیال کرنے کے بجائے اقتدار کی طاقت کے نشے میں بدمست سب کو للکار رہے ہیں، اگر عدالت ان کے خلاف کوئی فیصلہ دیتی ہے تو حکومت دوسرا قانون بنا لیتی ہے، حکومت عدالت کا فیصلہ ماننے کیلئے تیار نہیں ،عدالت کب تک تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے در گزر کرے گی ،عدالت نے آئین و قانون کی پاسداری بھی کروانی ہے،اتحادی حکومت کے باغیانہ رویئے سے لگ رہا ہے

کہ اپنے وزیر اعظم کو نااہل کرواکر ہی چھوڑے گی ،ایک عام تاثر ہے کہ مسلم لیگ (ن ) خود ہی شہباز شریف کو قربانی کا بکرا بنا رہی ہے،اس بڑی وجہ ان کے پاس پی ٹی آئی قیادت کی مقبولیت کا کوئی توڑ نہیں ہے ،مسلم لیگ( ن) ایک تیر سے دو شکار کرنے چلی ہے ،ایک اپنے وزیر اعظم کی قربانی دیے کر مظلومیت کے بیانیہ کے ساتھ الیکشن میں جانا چاہتی ہے ،دوسرا شہباز شریف کے نااہل ہو نے پرمریم نواز کاپارٹی میں کوئی حریف نہیں رہے گا۔اس ساری سیاسی کشمکش میں مسلم لیگ( ن) کہاں تک کامیابی حاصل کر پائے گی

،یہ آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،لیکن آصف علی زرداری اپنے مقصد میں ضرور وقت سے پہلے ہی کامیاب ہو گئے ہیں،انہوں نے مسلم لیگ( ن) کو پنجاب میں وہاں پہچا دیا ہے کہ جہاں کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی پہنچی تھی،پیپلز پارٹی تو آئندہ سندھ میں دوبارہ حکومت بنالے گی ،لیکن مسلم لیگ (ن)کا پتہ نہ صرف پنجاب ،بلکہ دیگر صوبوں میں بھی صاف ہوتا دکھائی دیے رہا ہے ، اتحادیوں نے مسلم لیگ( ن)کو فرنٹ پر رکھتے ہوئے جان بوجھ کر مرویا ہے ،آصف زرداری نے مسلم لیگ (ن)کے ساتھ چلتے ہوئے ایک ایسا سیاسی سبق دیا ہے کہ جسے مسلم لیگ (ن)قیادت ساری زندگی بھلا نہیں پائے گی۔
حکمران اتحاد نے تواقتدار میںکچھ نہ کچھ پایا ہے ، لیکن عوام نے سب کچھ ہی کھویا ہے ،عوام جتنے مہنگائی ،بے روز گاری کے ہاتھوں تنگ ہیں ،ایسے تنگ کبھی نہیں ہوئے تھے ،عوام کیلئے روٹی کے ایک نوالہ کا حصول بھی مشکل بنا دیا گیا ہے ،ایک طرف آئے روز مہنگائی میں اضافہ ہورہاہے تو دوسری جانب پٹرول ،بجلی ،گیس کی قیمتیں بڑھائی جارہی ہیں ،عوام بھوک سے تنگ آکر ایک دوسرے کے گھروں میں ڈاکے نہیں ماریں گے ،خود کشیاں نہیں کریں گے تو کیا کریں گے ،حکومت کے پاس عوام کے مسائل کا کوئی تدارک ہے

نہ ہی کوئی موثر حل تلاش کیا جارہا ہے ،لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک نہیں چلے گا، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے ، ملک جس نازک موڑ سے گزر رہا ہے ،اس موڑ پرکسی وقت بھی کچھ ہوسکتا ہے ،یہ سارا نظام ،سارا ڈھانچہ بکھر بھی سکتا ہے، ارباب اختیار کے پاس ابھی موقع ہے کہ اپنے سارے دعوے بندکرے اور توبہ کے ساتھ کفارہ ادا کرکے اپنی جان چھڑا لیں ،بصورت دیگر عوام ان کا ایسا حال کریں گے کہ خود سے خود کو بھی پہچان نہیں پائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں