83

جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے

جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے

سچ کی تلاش
کالم:سردار طیب خان
[email protected]
جو بھٹکتا ہے وہی راہ بنا جاتا ہے ورنہ بستی میں کہاں سیدھا چلا جاتا ہے وقت صحرا ہے کہاں اس پہ نشاں ملتے ہیں اک بگولہ ہی کئی نقش مٹا جاتا ہے اور پھر ایک بات اور کہ ’’اپنی حالت پہ ہنسی خود بھی مجھے آتی ہے۔جو بھی آتا ہے مجھے اور رُلا جاتا ہے‘‘ یہ دنیا ہے دنیا داری تو کرنا پڑتی ہے وگرنہ نتیجہ معلوم’’نظر انداز کیا ۔

میں نے بھی اس دنیا کو اور دنیا نے بھی پھر قر ض اتارے سارے‘ یہ بات اپنی جگہ کہ ایسا لکھو کہ جو پڑھنے کے قابل ہو‘‘ ضروری نہیں کہ جو آپ لکھیں وہ دوسروں کو پسند ہو یا پھر آپ وہ لکھ سکیں جو دوسرے پسند کرتے ہوں۔ مصلحت کوشی بھی ایک عادت ہے جس نے یہ چادر اوڑھ لی اس نے اپنا آپ گم کر لیا۔بس کبھی کبھی دل چاہتا ہے کہ دنیا کے اس ہنگام میں آپ سے کوئی ایسی بات ہی کی جائے جس میں حجاب ہو‘ خواب ہو اور گلاب ہو۔ ایک دانش ہے جو آپ کو گوشہ نشیں بھی بنا سکتی ہے

کہ جس میں تخت نشینی کے مزے بھی ہیں یا پھر خود فریبی منیر نیازی یاد آ جاتے ہیں کہ شہر سے دور جا بسے۔ہم ان کے ساتھ ہوتے تو ایک مہک جاں نشیں ہو جاتی۔ہائے ہائے! بے یقین لوکاں وچ بے یقین ہو جاندے سانوں خود پرستی نے شہر توں بچا دتا شاعری منیر اپنی باغ ہے اجاڑ اندر جیویں اک حقیقت نوں وہم وچ کھا دتا بس کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے بندہ اپنے آپ میں سمٹ جاتا ہے اور خود سے معانقہ کرتا ہے۔کون سمجھے مرا تنہا ہونا یہ ہے دنیا سے شناسا ہونا۔ کاش خوشبو کی طرح ہو جائے میرا دنیا میں ذرا سا ہونا۔ہمارے تخلیقی لمحے بھی عجیب ہوتے ہیں جون بدل کر رکھ دیتے ہیں ہمیں ان لمحوں کا بھی احساس ہوتا ہے جو سپاٹ اور بے ثمر ہوتے ہیں۔انہیں محسوس کریں تو وہ صورت پا جاتے

ہیں کئی مرتبہ محسوس کیا کہ بے مقصد جہے ہو گئے نیں۔میرے شام سویر۔بے مقصد میں بیٹھا رہناں کنی کنی دیر ۔ابھی مقصود وفا کا شعر پڑھ رہا تھا کہ ایک سوچ رکھنے والا شخص اس عہد میں کیسے سوچتا ہے: ایسا سکتہ ہے کہ مرنے کا گماں ہوتا ہے درد ہوتا ہے نہ احساس زیاں ہوتا ہے مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں۔ہمیں صرف مرض بتایا جاتا ہے علاج نہیں۔ مرض بتانے والا ہی ہمارا مسئلہ ہے کہ وہ ہمارے احساس کو ایک اور کچوکہ لگاتا ہے ہم کیا کریں کہ علاج بتانے بھی نہیں دیا جاتا۔جب کسی کی نشاندہی کرتے ہیں

تو کہا جاتا ہے اس کی طرف اشارہ بھی نہ کریں ہم تو آفاقی سچائی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بہم بیٹھنا اور مکالمہ کرنا ہی مسئلے کا حل ہے مگر سامنے کے رویے یہ ہیں کہ امجد اسلام امجد یاد آنے لگتے ہیں: دل کے دریا کو کسی روز اتر جانا ہے اتنا بے سمت نہ چل لوٹ کے گھر جانا ہے گھر کی بھی تو ابتری بڑھتی چلی جاتی ہے آپ کو معلوم ہو گا کہ جب اینٹی بائیٹک سے علاج طویل ہو جائے تو سرخ سیل بھی مرنے لگتے ہیں

۔اسی مثالوں میں نہیں پڑنا چاہتا تخلیق کاروں کے لئے یا سوچنے سمجھنے والے اشخاص کے لئے وقت کی ابتری اور افراتفری تخلیقی موت کا موجب بنتی ہے۔ہمیشہ سکون اور امن ہی میں ملک کی ترقی ہوتی ہے۔ معیشت بڑھتی ہے معاشرت پروان چڑھتی ہے اب تو کچھ بھی معلوم نہیں کہ کس کی کس گلی میں شام ہو جائے اور وہ اپنے والدین کو گھائو دے جائے۔یہ کوئی زندگی ہے کہ بات مار دھاڑ تک آ چکی ہے

۔کچھ پتہ نہیں کہ آپ باہر نکلے ہیں تو آپ کو واپسی کا راستہ مل سکے سب کچھ اندازوں پر چل رہا ہے۔دلچسپ سوال شبلی فراز نے کہا کہ یہ محسن نقوی اور عامر میر کہاں سے آئے ہیں۔ یہ سوال سب کے بارے سب ہی تو پوچھتے ہیں اور سب یہ جانتے ہیں کہ یہ سب کہاں سے آئے ہیں۔اگر یہ لوگ نہیں بھی جانتے عوام مگر جانتے ہیں: نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے پسینہ پونچھتے اپنی جبیں سے افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی انکشاف بھی ثمر بار نہیں ہوتا مسئلہ آپ توشہ خانہ کا معاملہ دیکھ لیں اس کا کیا فائدہ کہ بتایا جائے

سب ہی نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ ہی نہیں دھوئے بلکہ نہائے بھی ہیں۔ایک فطری سوال یہ ہے کہ یہ تحفے تحائف ریاست کا مال ہے کہ عہدہ انہیں ریاست نے دیا۔ایسا قانون کیوں نہیں بدلا جاتا کہ تھوڑے سے پیسے دے کر قیمت لگوا کر کروڑوں کے تحفے اچک لئے جائیں۔پہلے ہی ان کے دوروں اور عشائیوں پر کروڑوں اٹھتے ہیں۔ویسے اس سب لوٹ مار یا عیش کوش میں قصور ان میں سے کسی کا نہیں قصور صرف عوام کا ہے

کہ ان کے پاس کوئی چوائس ہی نہیں۔قبضہ کرنے والوں نے نظام ہی ایسا بنایا ہے کہ اس میں شریف آدمی کا گزر نہیں۔لوگ بھی اپنی اچھائی نہیں چاہتے صرف انہیں چاہتے ہیں جو ان کے ناجائز کام کروا سکے۔آپ دیکھ لیں لڑائی ان کے درمیان ہے جو انیس بیس کے ساتھ الزامات کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔گویا …

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں