مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے 118

یہ لڑائی کب ختم ہو گی!

یہ لڑائی کب ختم ہو گی!

ملک کے حالات پہلے بھی ہر لحاظ سے اچھے نہیں تھے ،مگر اب تو بیگاڑ بہت زیادہ ہی بڑھتا جارہا ہے ،اس جلتی پر پانی چھڑکنے کے بجائے مزید تیل چھڑ کا جارہا ہے ، اس سے حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں ،لیکن حالات کی نزاکت کا کوئی احساس ہی نہیں کررہا ہے ،ہر کوئی قومی مفاد کو دائو پر لگا کر اپنے حصول مفاد میں لگا ہوا ہے ،اس سے قبل ادارے ثالث کا کردار ادا کرکے بگڑے معاملات سلجھا لیا کرتے تھے

،لیکن اب ثالث کو ہی فریق بنادیا گیا ہے ،یہ سب کچھ ایک انتہائی گہری سازش کے تحت ہورہا ہے ،اس کے پیچھے کون ہے اور اس کا سب سے زیادہ فائدہ کسے ہورہا ہے ،یہ بات سب جانتے ہیں، لیکن اس کا اظہار دبے لفطوں میں کیا جارہا ہے ،کیو نکہ اس وقت اسی کو اچھا سمجھ رہا ہے، جو کہ ہاں میں ہاں ملائے ، اختلاف رائے رکھنے والو ں کو ملک دشمن قرار دیا جارہا ہے ۔نو مئی کوجوکچھ بھی ہو اہے،

اِس کی کسی صورت تائید نہیں کی جا سکتی،اس کے مجرموں کو قانون کے دائرے میں لا کر قرار واقعی سزائیں ملنی چاہئیں تاکہ آئندہ کسی کو بھی احتجاج کی آڑ میں مذموم مقاصد کی تکمیل کا موقع نہ مل سکے،پوری قوم اپنی بہادر افواج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور اپنی اداراتی قیادت سے اُمید رکھتے ہیں کہ جہاں مجرموںکو کیف کرادا تک پہنچایا جائے گا ،وہاں ایوان اقتدار میں بیٹھے سازشی عناصر کو بھی بے نقاب کیا جائے گا ،

اس واقعے میں جتنے پی ٹی آئی کارکنان قصوار ہیں ،اتنے ہی حکمران اتحادی بھی ذمہ دار ہیں ،انہوں نے عمران خان کو گرفتار کرکے اپنے انتقام کی آگ تو بجھا لی ،مگر اس کے بعد ملک بھر میں لگنے والی آگ کو جان بوجھ کر نہیں بجھا گیا ،حکمران اتحادنے اپنے ایک سالہ دور اقتدار میںماسوائے پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے کچھ نہیں کیا ہے اور آج بھی پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کے علاوہ کچھ نہیں کررہے ہیں ۔
اس ملک میں سیاسی پارٹیوں کی توڑ پھوڑ پہلی بار نہیں ہو رہی ہے ، ہر دور اقتدار میں ایسا ہی کچھ ہر اپوزیشن پارٹی کے ساتھ ہوتا رہا ہے ،لیکن اس سے سیاستدانوں نے کچھ نہیں سکھا ہے ،سیاستدان بار بار اپنی پرانی غلطیاں ہی دہرائے جارہے ہیں ،یہ آج جوکچھ بورہے ہیں ،یہ انہیں کل خودہی کا ٹنا پڑے گا،ہر دور اقتدار میں ایوان اقتدار میں رہنے والے بھول جاتے ہیں کہ انہیں کل اپوزیشن میں بھی آنا ہے

اور ان کے ساتھ بھی وہی کچھ ہو گا ،جوکہ آج دوسروں کے ساتھ کررہے ہیں ،یہ کل بھی دوسروں کے اشاروں پر ناچ رہے تھے ،یہ آج بھی دوسروں کے ہی آلہ کار بنے ہوئے ہیں ،انہیں صرف اقتدار چاہئے اور اس کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں ،اس اقتدار کی ہوس نے ہی انہیں ملک وعوام مخالف بنادیا ہے ،ملک وعوام درپیش مسائل کی چومکھی لڑ رہے ہیںاورسیاسی قیادت ملک و عوام کے مسائل کا ادراک کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو زیر کرنے سے ہی باز نہیں آر ہے ہیں۔
اہل سیاست کب اپنی ذاتیات سے باہر نکل کر ملک وعوام کا سو چیں گے ،سپریم کورٹ بار ہا کہہ چکی ہے

اور اب مقتدرہ نے بھی سیاسی کشیدگی کے خاتمے پر زور دیا ہے، سپریم کورٹ کی ہدایات اور فوجی قیادت کی خواہش اپنی جگہ ،لیکن سیاسی معاملات کا حل تو سیاسی قیادت نے خود ہی نکالنا ہے، جوکہ بظاہر انتہائی مشکل دکھائی دیے رہا ہے، لیکن اِس کشیدہ ماحول میں بہتری تو لانی ہی ہو گی ،تاہم یہ کارنامہ کون سر انجام دے گا؟ملک کے حالات کیسے بہتر ہوں گے؟ آگے کیسے بڑھا جائے گا؟یہ ایسے سوالات ہیں کہ جن کے جواب اہل سیاست کے پاس ہی ہیں، اہل ِ سیاست کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا،

اگر وہ واقعی عوام کے حقیقی نمائندے ہونے کے دعویدار ہیں تو صحیح معنوں میں اِس کا حق بھی ادا کرنا ہو گا، اگر سب ایک دوسرے کے مقابل ہی کھڑے ہے تو معاملات آگے کیسے بڑھیں گے؟ اہل سیاست کواپنے سیاسی مفادات اور نفرتیں ایک جانب رکھ کر ایک بار پھر مذاکرات شروع کر نا ہوں گے، اپنے ہی گھر میں لڑائی ہو جانے کا ہرگز مطلب نہیں ہوتا کہ اِس گھر کو ہی آگ لگا دی جائے یا گھر سے لوگوں کو باہر نکلنا شروع کر دیا جائے ،

سیاسی توڑ پھوڑ سے پہلے پارٹیاں ٹو ٹیں نہ اب ٹوٹ پائیں گی ،ہر بار ایک پرانے ناکام سکرپٹ کو نیا کر کے دوہرایا جاتا ہے،اس بار بھی دہرایا جارہا ہے ،لیکن اس کا انجام بھی وہی پرانے والا ہی ہو گا۔
یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف عمران خان کے ہوتے ٹوٹ پائے گی نہ ہی عوامی مقبولیت میں کوئی کمی آئے گی ،سیاسی پر ندوں جتنے مرضی اُڑ جائیں ،وقت آنے پر نئے پرندے ان کی جگہ لے لیں گے ،

کیو نکہ ووٹ تو عوام نے عمران خان کے نام پر ہی دینے ہیں ،حکمران اتحاد حقائق سے نظریں چرائے نہ پی ٹی آئی ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی حمایت کرے ،فریقین کو ایک دوسرے کو تسلیم کرتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہئے،اگر انہوں نے ایک دوسرے پربرتری ہی ثابت کرنی ہے تو سیاسی انداز میںانتخابی میدان میں کرنی چاہئے،جمہوری عمل کے تسلسل اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے کسی نہ کسی کو آگے بڑھتے ہوئے پہل کرنا ہو گی ،

عسکری قیادت کو بھی ایک موقع اہل سیاست کوضرور دینا چاہئے ، تاکہ دونوجانب سے الیکشن کے انعقاد پر مذاکرات کا آغاز کیا جاسکے ،الیکشن زیادہ سے زیادہ کتنا عرصہ تک مزید ملتوی کئے جا سکتے ہیں؟الیکش کا انعقاد ہی سارے مسائل کا واحد حل ہے، ملک الیکشن کے بغیر ایسے ہی زیادیر تک چلایا جاسکتا ہے نہ ملک میں جاری بڑوں کی لڑائی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ،یہ بات جتنی جلد سارے سٹیک ہو لڈر سمجھ جائیں ،اس میں ہی سب کی بہتری ہے!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں