2000 کے نوٹ بدلوانے کے یچھے کا راز کیا ہے؟ 92

مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے

مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے

نقاش نائطی ۔
+966562677707

فاتح مسجد اقصی،فاتح قسطنطنیہ اور فاتح عالم، خود رؤ جھاڑ جھنکار کی پیدانہیں ہوتےبلکہ نرسریز میں، کیڑے مکوڑوں سے آمان دلاتے ہوئے،مخصوص معتدل آب و ہوا میں پودوں کی جس بہتر انداز پرورش کی جاتی ہےکہ وہ تناور درخت بننے کے بعد، اچھے عمدہ پھل کثرت سے دینے لائق بن سکیں، اپنی چہیتی اولاد کو بھی، عمر بن الخطاب، جعفر ابن صفیہ عبد المطلب، خالد ابن ولید، زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، براء ابن مالک ، مثنی ، قعقاع ، عمرو بن معدی کرب(رضی اللہ عنھم اجمعین) اور فاتح مسجد اقصی سلطان صلاح الدین ایوبی علیہ الرحمہ و سلطان نورالدین زنگی علیہ الرحمہ نیز فاتح قسطنطنیہ سلطان محمد الفاتح علیہ الرحمہ جیسے بہادر اور مرد مجاہدانِ کار زار عرب کے ریگزار جیسا بنانا چاہتے ہیں

تو، انکی پیدائش کے پہلے دن ہی سے، ان کی تربیت کچھ انہی کی طرح، ہمیں کرنی کرنی پڑیگی۔ شیطان رجیم کو خوش کن کرتی مسحور کن موسیقی والے ٹیلیوزن وافلام پس منظر سے، انکے معصوم ذہن وافکار کو پراگندہ ہونے سے انہیں بچانا ہوگا۔امہ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ جیسے طفل مکتب ہی سے، کسی بھی چیز کے حصول کے لئے، اپنے پیدا کرنے والے مالک دوجہاں سےلؤ لگائے، اسی سے مانگنے کی ادا اور قادر مطلق کی طرف ہی سے،ہماری ہردنیوی خواہش بھی پوری کئے جانے کا یقین وایمان کامل اپنی اولادوں میں پیدا کرنا ہوگا۔

کسی بھی مصلحت سے معاشرے میں عام بولے جانے والے، جھوٹ افترا پروازی سے انہیں آمان میں رکھنا ہوگا، تبھی ہم اس یہود و ہنود ونصاری غلبہ والےاسلام دشمن پس منظر میں بھی، اہل سلف و صالحین دور والے مجاہد و داعی پیدا کرسکیں گے۔انشاءاللہ فثم انشاءاللہ۔ کسی اور کی عربی تحریر ترجمہ کے اس حصہ کو بھی اسی عظیم مقصد بار آوری کے پڑھا جائے۔سلطان محمد الفاتح کو ان کی والدہ ان کے بچپن میں قسطنطنیہ کی فصیل دکھانے لے جاتی تھیں اور کہتیں تھیں “اے محمد! تیرا نام محمد ہے اور تو ہی بہت جلد ان فصیلوں کو فتح کریگا“

صلاح الدین ایوبی کو ان کے والد نے بچپن کے زمانہ میں لڑکوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو ان کے بیچ سے اسے اٹھالیا وہ چونکہ لمبے قد و قامت کے انسان تھے، اپنے دونوں ہاتھ سے پکڑ کر اپنے سے اونچا اٹھالیا اور کہا۔ “میں نے تیری ماں سے اس لئے نکاح نہیں کیا اور تجھے اس لئے جنم نہیں دیا کہ تو لڑکوں کے ساتھ کھیلنے لگے! میں نے تو اس لئے تیری ماں سے نکاح کیا اور تجھے جنم دیا

کہ تو مسجدِ اقصی بیت المقدس کو آزاد کراسکے۔“ لمبے قد کے انسان اور بیٹے کو ہاتھ سے اوپر اٹھائے ہوئے، اوپر ہی سے چھوڑ دیا ، بچہ صلاح الدین زمین پر گرگیا۔باپ نے بیٹے کی طرف نگاہ ڈالی تو درد کے آثار بچے کے چہرے پر عیاں دیکھ اس ہوچھا۔
“گرنے پر تجھے درد ہو رہا ہے کیا؟”
صلاح الدین نے کہا۔ “درد تو ہو رہا ہے ابو۔“
باپ نے پوچھا “تو درد سے کیوں نہیں چیخا؟“
ننھے صلاح الدین ایوبی کا اس وقت کہا وہ جملہ سنہری اسلامی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔“مسجدِ اقصی کوآزادی دلانے والے کیلئے یہ مناسب نہیں کہ درد پر روؤں اور چلاؤں؟

سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنھا کو اپنے بیٹے زبیر (رضی اللہ عنہ) کے گھوڑے کی پیٹھ سے گر جانے کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی تھیں عرب اپنے بچوں کو مہینوں سالوں جنگلوں کی طرف بھیج دیتے تھے اوران کے دلوں کو اندیشہ و خوف نہیں کھاتا تھا۔ مکہ کی وادیوں میں بچے بکریوں کے ساتھ تنہا راتیں گزار دیتے تھے ان کی ماوؤں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ عرب کے بانکے جوان جیسے حمزہ بن عبد المطلب (رضی اللہ عنہ) تجارت کیلئے، اونچے اونچے پہاڑوں پر چڑھنے کیلئے، شیروں کے شکار کیلئے نکلتے تھے مگر ان کی مائیں دہشت سے مرتی نہیں تھیں

یہی سبب ہے کہ جب عرب میں اسلام خا سورج طلوع ہوا تو ان جیالوں میں، عرب کی جسمانی قوت کے ساتھ روحانی قوت مشترک پائی گئی اور خالد ابن ولید ، زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، براء ابن مالک ، مثنی ، قعقاع ، عمرو بن معدی کرب(رضی اللہ عنھم اجمعین) جیسے بہادر اور مرد مجاہدانِ کارزار عرب کے ریگزار پر ظاہر ہوئے۔ اللہ کا نام لے کر نکلے اور قیصر و کسری کی عظیم سلطنتیں لےکر ہی واپس لوٹے
۔
آج کے اس پرفتن دور میں بھی قوم مسلم کو صفیہ جیسی ماں کی ضرورت ہے جو زبیر جیسے بچے کی پرورش کرسکے۔ نجم الدین جیسے باپ کی حاجت ہے جو صلاح الدین جیسے شیر کو پال کر جوان کرسکے۔امت مسلمہ تاریخ کے ایسے پرفتن دور میں داخل ہوچکی ہے جہاں مذکر و مونث نام والے کا کوئی مطلب نہیں رہا، قوموں کا مستقبل اج کے بچوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو دور حاضر کے گندے حقائق کا شکار بننے کیلئے آزاد نہ چھوڑاجائے،ٹی وی ڈراموں اور فلموں نے نسلوں کو برباد کرڈالا ہے،گندے مناظر کے سوا کیا ہے وہاں دین اور اچھی تربیت سے دوری ہی دوری نظر آتی ہے۔

“ہر شخص رعیت والا اپنی اولاد کی پرورش کا ذمہ دار ہے اور اپنی اولاد یا ماتحتین کے متعلق پوچھا جائیگا۔” آج بھارت میں عصری تعلیم حاصل کرنے والی مسلم دوشیزاؤں کے ھندو لڑکوں کے ساتھ بھاگ کر اور اپنا دین اسلام بھی ترک کرتے ہوئے، شادی کرنےکے جو واقعات کثرت سے مسلم امہ ھند کے سامنے آرہے ہیں اس کے لئے اسلام دشمن سازش کنددگاں سنگھی آرائش ایس بی جے پی سے کہی زیادہ ہم مسلمان والدین اس کے لئے قصور وار ہیں۔ عصری تعلیم حصول مناہی نہیں ہے، لیکن بچپن کی ابتدائی دینی علوم فیضیابی کے ساتھ عصری تعلیم دلوانا جہاں اچھا ہے

وہیں ابتدائی بنیادی دینی تعلیم کے بغیر عصری تعلیم حصول والا موجودہ پراگندہ ماحول انکے ارتداد کا باعث بن رہا ہے۔ ثانیا” مسلم معاشرے میں،اسلامی تعلیمات کے منافی شادی بیاہ کے سلسلے میں کفار سے ہم مسلم قوم میں عود کر آئے،جہیز، منھ دکھائی، دولہا کاجوڑا،اور ولیمہ کے اخراجات لڑکی والوں پر ڈالنے جیسے بعض رسوم رواج نے مسلم معاشرے میں مسلم دوشیزاوؤں کو اغیار کے سازشی شکنجے میں پھنسنے کے مواقع فراہم کئے ہیں

ابھی اور اسی وقت سے ہر طرح کی فلم ، ڈرامے اور بے حیائی اور مخربِ اخلاق مناظر کی طرف نگاہ ڈالنے سے ہم توبہ کریں اور اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کا عہد کریں۔پڑھیں اپنے ہیروز کی تاریخ پڑھیں ۔ یہ فلموں میں ناچنے والے ہیرو، اصلی ھیرو نہیں زیرو ہیں۔ یہ ہمارے اعمال ہی کو خراب نہیں کرتے ہمارے ایمان کی بربادی کا سبب بن رہے ہیں فلم اور سیریل کا کوئی منظر نامہ جو شرک و کفر پر مشتمل ہو ہمارے ذہن و اذکار میں موجود ایمانی قدروں کو بتدریج زائل کیا کرتا ہے۔اس لئے ایسی لغو چیزوں سے دورہ ضروری ہے

سب سےاہم ہمارے پیٹ میں جانے والی رزق کا حلال ہونا ضروری ہے۔یہ اس لئے غرام اغذیہ سے بنے، بدن میں دوڑتے خون کی موجودگی ہمارے نماز روزے جیسے اعمال کو بھی بےوقعت کر چھوڑتی ہے۔ اس لئے رزاق دنیا کی رزاقیت، اور وقت پیدائش آدم ہر ذی روح کی قسمت لکھ لوح محفوظ میں رکھ دئیے جانے والی تقدیر پر ایمان کامل رہتے پی ہمارا اغذیہ سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔کم دکھنے والی رزق میں جو برکت ہے وہ حرام کثرت رزق میں کہاں؟وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں