جمہوریت جمہوری طریقہ ہی اپنایا جائے !
وطن عزیز کے حالات جو پہلے بھی مثالی ہرگز نہیں تھے، اپوزیشن اور حکومت کے مابین اقتدار کی جاری جنگ میں اور زیادہ بد سے بدترین ہوتے چلے جارہے ہیں،ایک طرف اہل سیاست دست گریباں ہیں تو دوسری جانب عدلیہ اور مقتدرہ کو بھی اپنی اپنی بالادستی کے اظہار کی پڑی ہوئی ہے، اس صورتحال میں مہنگائی کے مارے بچارے عوام زیادہ بدحال، نڈھال اور نیم جان ہو تے جارہے ہیں، ایک عام فرد جس کا پہلے ہی کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، اب خود کومزیدبے بس، لاچار اور بے سہارا سمجھنے پر مجبور دکھائی دیتا ہے
،جبکہ حکمران اتحاد اپنے وعدے کے مطابق عوام کو کوئی رلیف دینے کے بجائے نیب اور تو ہین پارلیمان قوانین بنانے میں لگے ہوئے ہیں ، حالانکہ سب سے زیادہ استحصال اور تو ہین عوام کی ہورہی ہے ،عوام کو سڑکوں پر مارا اور گھسیٹا جارہا ہے ،لیکن کوئی عوام کی توہین پر آواز اُٹھانے کیلئے تیار ہی نہیں ،کیو نکہ عوام کیلئے آواز اُٹھانے پر آواز اُٹھانے والوں کو ہی اُٹھا لیا جاتا ہے۔
حکمران اتحادی جب سے اقتدار میں آئے ہیں ،عوامی مسائل کا تدارک کرنے کے بجائے اپنا سارا زور خود کو بچانے اور اپنے اقتدار کو مضبوط بنانے میں ہی لگا رہے ہیں ، اتحادیوں نے پہلے آتے ہی نیب قوانین میں ترامیم ،پھر عدالتی اصلاحات پر قانون سازی اور اب توہین پارلیمنٹ بل منظور کرلیا ہے،
اگر چہ پا لیمان کا کام ہی قانون سازی کرنا ہے ،لیکن قانون سازی عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کی جائے تو اسے عوام کی حمایت بھی حاصل ہو تی ہے ،جبکہ اس وقت ساری قانون سازی عوامی مفادات کو بالا ئے طاق رکھتے ہوئے اپنے حصول مفاد میں ہی کی جارہی ہے ،اس لیے حکمران اتحاد کی قانون سازی پر عوامی پزی آرائی مل رہی ہے نہ ہی اسے عدلیہ مان رہی ہے ،اس کے باوجود حکو مت ایک کے بعد ایک پا رلیمان کی آڑ میں عوام مخالف اقدامات کیے جارہی ہے ۔
یہ کتنی عجب بات ہے
کہ جمہوریت کے دعوئیدار ہی جمہوریت کے خلاف اقدامات کررہے ہیں اور کو ئی پو چھنے والا ،کوئی روکنے والا ہی نہیں ہے ،اگر کوئی پو چھنے یا روکنے کی جسارت کرتا ہے تو اس کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی جاتی ہے ، جمہوریت میں وزیر اعظم سمیت کابینہ اور پوری پارلیمنٹ سے سوال کیا جاسکتا ہے ،جبکہ فاشسٹ نظام عوام کو سوال کے حق سے محروم کرتا ہے،حکومت نے پارلیمنٹ میں جو تو ہین پا رلیمان کا مسودہ منظور کیا ہے، اس کے تحت حکومت سے لے کرپارلیمنٹ کی کسی کمیٹی تک سے سوال کرنا جرم بنا دیا گیا ہے،
اس طرح کی قانون سازی سے بھلے کسی خاص سیاسی گروہ کی حوصلہ شکنی کرنا تو مقصود ہوسکتا ہے، لیکن اس کا سب سے زیادہ اثر عوام کے ساتھ میڈیا کی آزادی پر پڑے گا،عوام اپنے ہی منتخب نمائندوں سے کچھ پو چھ پائیں گے نہ ہی میڈیا حکومتی وزراء سے لے کر پارلیمان کے عہدہداروں تک کے متعلق کوئی تنقیدی رپورٹ جاری کر پائے گا، اس لحاظ سے ایسا بل اظہار رائے کی تسلیم شدہ آزادی غصب کرنے کے ہی مترادف ہو گا۔
یہ ایک عام مشاہدے کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی سب سے زیادہ توہین خود اس کے اپنے ہی اراکین کرتے آرہے ہیں، پارلیمنٹ میں ہی ایک دوسرے کو گالیاں دی جارہی ہیں، پا رلیمنٹ میں ہی بیٹھ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اپثھالنے کے ساتھ دیگر ادارتی اہم عہدیداران کی تحقیر کی جارہی ہے،اس پارلیمنٹ میںہی خر ید وفروخت کرکے ایک منتخب حکومت گرائی گئی ،یہ سب تو ہین عدالت نہیں ، اس کا ذمہ دار کون ہے ؟
پارلیمنٹ کی ساکھ تباہ کرنے والوں پر سب سے پہلے توہین پارلیمنٹ لگانی جانی چاہئے ، لیکن ایسا کبھی نہیں ہو گا ،یہ بل پا رلیمان سے زیادہ اپنے مفاد کے حصول کیلئے بنایا جارہاہے،ایک عرصے سے اداروں کے در میان راسہ کشی دیکھنے میں آ رہی ہے،پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے ازخود نوٹس لیے جانے کے بعد اِس رسہ کشی نے بڑی شدت اختیار کر لی ہے، عدالتی کارروائی کے دوران مختلف مواقع پر پارلیمنٹ اور ارکان اسمبلی کے کردار و افعال پر ایسے ریمارکس دیے گئے
کہ جس پر پارلیمنٹ میں شدید ر دعمل دیکھنے میں آیا ہے ،پارلیمنٹ نے پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے بینچ بنانے کے اختیار کو محدود کرنے کے لیے بل منظور کیا ،لیکن اس پرسپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے عملدرآمد روک دیا، اب توہین پارلیمنٹ نام کا بل بظاہر جمہوری اداروں کا احترام یقینی بنانے کی کوشش کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، لیکن اس بل سے پارلیمنٹ عوام سے الگ ایک استحصالی ادارہ بن کر رہ جائے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ حکمران اتحاد توہین پارلیمان کا قانون پارلیمان میں منظور کروانے کے بعد عوامی پزی آرائی نہ ملنے پر بھی اطلاق کرکے ہی رہیں گے ، تاہم پا رلیمان اب تک عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے ،اس پر مزید اظہار رائے جیسی نئی پابندیوںسے سماج میں تصادم ہی بڑھے گا،