14مئی کو انتخابات کا حکم: پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنےکی استدعا
14مئی کو انتخابات کا حکم: پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنےکی استدعا
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے حکم پر الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست پر سماعت جاری ہے، پی ٹی آئی نے درخواست پر اپنا جواب جمع کروادیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی روسٹرم پر آگئے، ان کا کہنا تھا کہ وفاق اور پنجاب حکومت کا جواب ابھی ملا ہے، پی ٹی آئی نے تحریری جواب جمع نہیں کرایا، کوئی بھی جواب پہلے سے مجھے فراہم نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ کیا ہم آپ کی مدد کریں کہ جوابات میں کیا کہا گیا ہے؟ پہلےآپ نے یہ بتانا ہے کہ کیسے نظر ثانی درخواست میں نئے گراؤنڈز لے سکتے ہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ رولز سپریم کورٹ نے خود آئین کے تحت بنائے ہیں، سپریم کورٹ کرمنل اور سول دائرہ اختیار سے باہر اختیارات استعمال نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ کے نظرثانی کے اختیار کا آرٹیکل188 اختیارات کو محدود نہیں کرتا، بڑھاتا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آئین سپریم کورٹ کو اپنے فیصلوں پر نظرثانی کی اجازت دیتا ہے، اب آگے چلیں۔
اس دوران پی ٹی آئی نے پنجاب الیکشن نظرثانی کیس میں جواب جمع کرا دیا۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ پنجاب اور کے پی کے کروڑوں عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں، مفاد عامہ اورپبلک رائٹس میں آپ فرق نہیں کر پا رہے، آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں؟ ہم سمجھ نہیں پا رہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ نظرثانی درخواست کا دائرہ اختیار آئینی مقدمات میں محدود نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے لیے عدالت سے رجوع کرنا سول نوعیت کا کیس ہوتا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری کے تحت کارروائی سول نوعیت کی نہیں ہوتی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آرٹیکل 184 تھری کا ایک حصہ عوامی مفاد اور دوسرا بنیادی حقوق کا ہے۔
جسٹس منیب اختر نےکہا کہ اگر انتخابات کا مقدمہ ہائی کورٹ سے ہوکر آتا تو کیا سول کیس نہ ہوتا؟
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا آئینی اختیار سپریم کورٹ سے زیادہ ہے۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کے مطابق نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں بلکہ طریقہ کار محدود ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نظرثانی کیس میں اپنے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیوں کرے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا سپریم کورٹ آئین میں درج اپنے تمام دائرہ کار کویکجا کرکے استعمال کرسکتا ہے؟
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ ہائی کورٹ سے اپیل آئے تو آپ کے مطابق عدالتی دائرہ کار محدود ہے، نظرثانی کیس میں آپ کا موقف ہےکہ دائرہ محدود نہیں، کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمےکے ساتھ امتیازی سلوک نہیں؟ سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیار میں ابہام پیدا کرے؟
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 184 تھری میں اپیل کا حق نہیں، اپیل کا حق نہ ہونےکی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ اصل سول دائرہ کار ہائی کورٹ کو حاصل ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، 24 سے زائد فیصلے پڑھے لیکن نظرثانی اختیار کی حدکسی میں لکھی نہیں گئی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا پتہ آئین سازوں نے نظرثانی کا دائرہ کار محدود اس لیے رکھا ہوکہ مرکزی کیس کے متن سے باہر نہ جایا جائے، ہم اس کو نظرثانی کے بجائے ایک ہی کیس کی دوبارہ سماعت کیوں نہ کہیں؟
وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ عدالت کو نظر ثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، عدالت کو نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نکتہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ کیا آپ کی دلیل ہےکہ 184 تھری میں نظر ثانی کی سماعت اپیل کی طرح کی جائے؟
وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ بالکل میں یہی کہہ رہا ہوں، 184 تھری میں نظرثانی دراصل اپیل ہی ہوتی ہے،184 تھری کے مقدمے میں نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے وکیل الیکشن کمیشن سےکہا کہ آپ نے دلائل میں بڑے اچھے نکات اٹھائے ہیں، ان نکات پر عدالتی حوالہ جات اطمینان بخش نہیں ہیں، آپ اپنے دلائل میں صرف نظرثانی تک محدود رہیں۔
وکیل سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ جو نکتہ اس کیس میں ہے یہ اس سے پہلےکبھی کسی کیس میں نہیں اٹھایاگیا۔
جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ مسئلہ یہ ہےکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ نظرثانی درخواست مرکزی اپیل کے برابر ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کے 9 ممبر بینچ نے صرف نظرثانی کے معاملے پرفیصلہ دیا، بھارتی سپریم کورٹ نے نظرثانی کو مرکزی اپیل کا اسکوپ دیا۔
چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے پاس ایپلٹ اور اوریجنل دائرہ کار ہے، ایپلٹ دائرہ کار میں ہائی کورٹ کے فیصلےکے خلاف اپیل سپریم کورٹ آتی ہے، اوریجنل دائرہ کار میں نظرثانی کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہوتا، آپ یہ کہہ رہےہیں کہ سپریم کورٹ نظر ثانی کے ساتھ مکمل انصاف کے تقاضے بھی مدنظر رکھے، یہ سارے معاملات سادہ انداز میں بتائیں ورنہ ہم توبھمبھیری کی طرح پھرنے لگ جائیں گے، حکومت اور نگران حکومت کے جوابات کو سراہتے ہیں کیونکہ اس بارکیس سنجیدگی سے لے رہے ہیں، اس سے پہلے تو سب نمبرز میں لگے ہوئے تھے، جوباتیں اب کر رہے ہیں پہلے کیوں نہیں کیں؟ کیاان باتوں کو پہلےنہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ کے مقاصد کچھ اور تھے؟ ابھی آگے چل کر آپ سے اور بھی سوالات ہوں گے۔
وکیل الیکشن کمیشن سجیل سواتی کا کہنا تھا کہ پہلے یہ نکات نہ اٹھانے کی وجوہات بھی بتاؤں گا، عدالت اگر 4 اپریل کے اس فیصلےکی تفصیلی وجوہات دیے تو ہمیں بھی آسانی ہو جائےگی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ تفصیلی وجوہات عدالت دے گی لیکن جو سوال نظرثانی کے اختیار پر اٹھایا ہے اس سے آپ کے لیے دلائل کا گیٹ وے کھل جائےگا، میرے نزدیک نظرثانی کے اسکوپ کو وسیع کرنےکے حوالے سے گزارشات کافی دلچسپ ہیں۔
سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت کل دن 12:15 بجے تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کا 4 اپریل کا فیصلہ
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے 4 اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تاہم 14مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عمل درآمد نہیں ہوا۔
3 مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظر ثانی درخواست دائرکی تھی، درخواست میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے انتخابات میں تاریخ دینے پر اعتراض اٹھایا تھا۔
سپریم کورٹ نے 15 مئی کو کیس کی سماعت کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کیا تھا، الیکشن کمیشن، اٹارنی جنرل، پنجاب حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی کا جواب
اپنے جواب میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مسترد کرنے کی استدعا کرتے ہوئےکہا ہےکہ نظرثانی اپیل میں الیکشن کمیشن نے نئے نکات اٹھائے ہیں، نظر ثانی اپیل میں نئے نکات نہیں اٹھائے جاسکتے، الیکشن کمیشن نظرثانی اپیل میں نئے سرے سے دلائل دینا چاہتا ہے، عدالت نے اپنے فیصلے میں کوئی تاریخ نہیں دی، عدالت نے 90 دن میں انتخابات کے لیے ڈیڈلائن مقرر کی، صدر مملکت نے انتخابات کے لیے30 اپریل کی تاریخ دی، الیکشن کمیشن نے30 اپریل کی تاریخ کو تبدیل کردیا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جواب میں کہا گیا ہےکہ سپریم کورٹ نےالیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر 30 اپریل کی تاخیر کو کور کیا، 30 اپریل کی تاریخ میں 13 دن کی تاخیر ہوئی، عدالت نے فیصلے میں13 دن کی تاخیر کو کور کیا، الیکشن کمیشن چاہتا ہے کہ سپریم کورٹ نظریہ ضرورت کو زندہ کرے، نظریہ ضرورت دفن کیا جاچکا جسے زندہ نہیں کیا جاسکتا، 90 دنوں میں الیکشن آئینی تقاضہ ہے، آرٹیکل218 کی روشنی میں آرٹیکل224 کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، آئین اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دیتا ہے، آئین میں نہیں لکھا کہ تمام انتخابات ایک ساتھ ہوں گے، الیکشن کمیشن کےکہنے پر سپریم کورٹ آئین میں ترمیم نہیں کرسکتی۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہےکہ آرٹیکل254 کے لیے 90 دنوں میں انتخابات کے آرٹیکل224 کو غیر موثر نہیں کیا جاسکتا، آئین کے بغیر زمینی حقائق کو دیکھنے کی دلیل نظریہ ضرورت اور خطرناک ہے، ایسی خطرناک دلیل ماضی میں آئین توڑنے کے لیے استعمال ہوئی، عدالت ایسی دلیل کو ہمیشہ کے لیے مسترد کرچکی ہے۔
نگران پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت کا جواب
گزشتہ روز پنجاب میں انتخابات کرانےکے فیصلےکے خلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست میں نگران پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کروایا تھا۔
وفاقی حکومت نے پنجاب میں 14 مئی کو انتخابات کے فیصلے پرنظرثانی کی استدعا کی ہے۔
وفاقی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہےکہ آزادانہ اور شفاف انتخابات کروانے کی آئینی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے، سپریم کورٹ نے خود تاریخ دے کر الیکشن کمیشن کے اختیار کو غیر موثر کر دیا، پنجاب میں انتخابات پہلے ہوئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات متاثر ہونےکا اندیشہ ہے۔
نگران پنجاب حکومت نے صوبے میں فوری انتخابات کی مخالفت کرتے ہوئےکہا ہےکہ الیکشن کی تاریخ دینےکا اختیار ریاست کے دیگر اداروں کو ہے، 14 مئی الیکشن کی تاریخ دے کر اختیارات کے آئینی تقسیم کی خلاف ورزی ہوئی ہے، آرٹیکل 218 کے تحت صاف شفاف الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کا اختیار ہے، اختیارات کی تقسیم کے پیش نظر سپریم کورٹ نے خیبرپختونخوا میں الیکشن کی تاریخ نہیں دی۔