سری نگر جی ٹوئنٹی پر کشمیری سراپہ احتجاج !
جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے اور کشمیری ابھی تک اس بات کے منتظر ہیں کہ وہاں اقوامِ متحدہ کے تحت استصواب رائے کروایا جائے، پاکستان کی طرف سے ہر فورم پر اس مسئلے کو بھر پور طریقے سے اٹھایا جاتا رہا ہے، لیکن اقوام عالم عر صہ دراز سے اپنا وعدہ پورا نہیں کر پارہے ہیں، اب تو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد دنیا بھر کو نہ صرف ٹکا سا جواب دے دیا ہے،
بلکہ ایک متنازع علاقے میں بڑی دیدہ دلیری سے جی ٹو نٹی کا اجلاس بھی کرروارہا ہے،بھارت نے اپنے تئیں شاطرانہ چال چلی ہے کہ دنیا بھر کے اہم ممالک جب سر نگر میں آکر شرکت کریں گے تو گویا اس متنازع خطے کے بھارتی علاقہ ہو نے پر مہر تصدیق ثبت کردیں گے ،مگر بھارت کو یہ چال بھی بہت مہنگی پڑی ہے ،مسئلہ کشمیر دبنے کے بجائے ساری دنیا کے سامنے ایک بار پھر مزید اُجاگر ہو کر سامنے آرہا ہے ۔
بھارت ایسا پہلی بار نہیں کررہا ہے ،بھارت عرصہ دراز سے کشمیر کے حیرت پسندوں کو زیر دام لانے کیلئے نت نئے جال بچھا تا ہی رہتا ہے ،اس بار بھی کشمیر میں اپنے ظالمانہ و جابرانہ قبضے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی چال چلی گئی تھی ،مگر اس کی بازی الٹ گئی ،چین نے وشفاف الفاظ میں اعلان کر دیا کہ وہ سری نگر اجلاس میں شر کت نہیں کرے گا ،جبکہ سعودی عرب ،ترکی اور مصر نے بھی انکار کر دیا ہے
،دنیا بھر میں مقبو ضہ و متنازع عالاقے میں جی ٹونٹی کا اجلاس منعقد کر نے کے پیچھے بھارت کی مکارانہ سوچ کو بے نقاب کیا جارہا ہے ،ایک طرف مقبو ضہ وادی میں کا میاب ہڑتال کی جارہی ہے تو دوسری جانب ساری دنیا میں کشمیری سر اپہ احتجاج ہیں اور اقوام متحدہ سمیت دیگر طاقتور اداروں کو اُن کی قرادادیں ،وعدے اور یادشتیں یاد دلائی جارہی ہیں ۔بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کو غلام بنا نے میں کو شاں ہے
،مگر اس وادی کے دلیر بیٹے اور بیٹیوں نے اپنے عزم ِ جواں سے ساری غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھنکا ہے ،مقبو ضہ وادی کے کشمیری اپنی آزادی کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور پاکستانی عوام بھی ہر طرح سے ان کی مدد گار رہے ہیں ،تاہم پا کستانی حکومت کی جانب سے ردعمل مطلوبہ نہیں آرہا ہے ،ہردور اقتدار میں ڈھیلا ڈھالا انداز اختیار کیا جاتا رہا ہے ،اس بار بھی وزیر خارجہ کو آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کے لیے بھیج دیاگیا ہے،
اگر جی ٹو نٹی کے اعلان کے ساتھ ہی وزیر خارجہ اور پاکستان کی کشمیر کاز سے مخلص سیاسی جماعتوں کے نمائندوں پر مشتمل وفد کو جی ٹو نٹی ممالک کے دورے پر بھیج کر فضا ہموار کی جاتی تو بھارت کو کم از کم کانفرنس کا مقام تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاسکتا تھا، لیکن یہ کانفرنس سر نگر میں ہی ہو رہی ہے اور پا کستان ماسوائے مذمت کے کچھ بھی نہیں کر پایا ہے ۔پاکستانی حکمرانوں کی جانب سے ڈھیلے ڈھالے ردعمل کی وجہ سے ہی بھارت کی ہمت بڑھتی جارہی ہے،اس جانب اگست 2019ء سے توجہ دلائی جارہی ہے
کہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دینے کے باوجود حکمران اس کو اپنا حصہ ثابت کرنے کے لیے دل و جان سے کوشش نہیں کررہے ہیں،مقبو ضہ وادی کے حوالے سے زبانی کلامی دعوئے اور تقاریرمسائل کا حل نہیں ہیں، اخبارات میں بیان و اشتہارات کبھی بھارت کا راستہ نہیں روک سکتے ہیں،اگر بھارت کو روکنا ہے تو وزارت خارجہ کو متحرک کرنا ہو گا ، یہ وزارت خارجہ کے سیر و سیاحت کے دوروںکو کامیاب خارجہ پا لیسیکے حو سلہ افزاء نتائج میں بدلنا ہو گا ،اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو کم از کم عوام اور کشمیر کے لیے جدوجہد کرنے والوں پر ہی پابندیاں نہ لگائی جائیں، اس سے تو بھارت کو پیغام ملتا ہے
کہ جو کرنا ہے کرلو پاکستان میں بھی ہمارے ہی ہم خیال حکمران ہیں۔پی ڈی ایم میں شامل ساری جماعتیں کل تک عمران خان حکومت پر کشمیر کے سودے کا الزام لگاتی رہی ہیں، لیکن آج خود اقتدار میں ہیں تو کشمیر محض تقاریر تک محدود کر دیا گیا ہے ، پا کستان میںکشمیریوں کی حمایت پاکستانی عوام نے ہی کی ہے ،حکمران تو کشمیر کو اپنے سیاسی مقاصد کیلئے ہی استعمال کرتے رہے ہیں، اس پا لیسی کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیائے عالم بھی دوغلی پا لیسی اپنائے ہوئے ہیں، اس معاملے میں پاکستان کو دنیا کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنا مسئلہ خود حل کرنے کی طرف توجہ دینی ہوگی، لیکن اس میں سب سے بڑی مشکل ہے
کہ یہاں حکمرانوں اور اداروں کو سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے ہی فرصت نہیں تو کشمیر پر کیسے اپنی پا لیسی رویو کی جائے گی ،مقبو ضہ کشمیر پا کستان کی شہہ رگ ہے اور اس شہہ رگ سے ہی خطے کا قیام امن جڑا ہے ،پا کستانی حکمران جب تک اپنی خارجہ پالیسی کی سمت درست کر تے ہوئے فعال نہیں بنائیں گے ،بھارت کی منہ زوری کو نکیل ڈالی جاسکتی ہے نہ ہی مذاکرات پر آمدہ کیاجاسکتا ہے ،بھارت جب تک یو این او کی قرار دادوں کے مطابق مقبو ضہ کشمیر یوں کو حق رائے دہی نہیں دے گا ،اس وقت تک خطے میںقیام امن کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔