مجاہدین پیداکرنے والی ماؤں کی معاشرے کو ضرورت ہے 48

سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم

سیاسی وفاداریاں بدلنے کا موسم

ملک میں سیاسی موسم بدلتے ہی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہو نے لگی ہیں ،پی ٹی ئی نے جس طرح کل دوسری پارٹیوںکی وکٹیں گرائی تھی ،آج اسی طرح پی ٹی آئی کی و کٹیں اُکھاڑی جارہی ہیں ،تاہم آج اور کل میں فرق اتنا ہے کہ کل بدلتی ہوائوں کا رُخ دیکھتے ہوئے موسمی پرندے اپنی من منشاء سے اُڑ کر آئے تھے ،آ ج نہیں زبر دستی نہ صرف اُڑایا جارہا ہے ،بلکہ آمر انہ ذہنیت کے سائے میںبیٹھایا بھی جارہا ہے ،اس پر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہناہے کہ جبری شادیوں کا سنا تھا، اب جبری علیحدگیوں کا نیا عجوبہ سامنے آرہا ہے،لیکن اس سے پارٹی ختم ہو گی نہ ہی مقبولیت میں کوئی فرق پڑے گا۔
ہمارے ہاں سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رواج نیا نہیں ہے ،یہاں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا ہر دور میں ہی عام رہا ہے ،تاہم موجودہ دور میں وفاداریاں بدلنے اور تبدیل کروانے کا معیار یکسر ہی بدل گیا ہے ،اس سے قبل سیاستدان تب پارٹی چھوڑ تے تھے کہ جب اگلے پانچ برس تک اقتدار میں آنے کی کوئی اُمید باقی نہ رہے ،مگر اس بارعوام میں ایک مقبول پارٹی سے وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں اور جمہوریت کے دعویدار خاموش تماشائی بنے دیکھ رہے ہیں ،یہ ملک کہنے کو ہی ایک جمہوری ریاست ہے

،لیکن اس میں جمہوریت دور تک کہیں دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔جمہوریت پر سے ساری یقین دہانیوں کے باوجود آمریت کے سائے ڈھلے نہیں ہیں ،اس لیے ہی ملک میں سیاسی انتشار اور افرا تفری دکھائی دیتی ہے ،ایک طرف سیاسی انتقام اپنے عروج پر ہے تو دوسری جانب مائنس فارمولے کے تحت وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں ،یہ فارمولہ پہلے کا میاب ہوا نہ ہی آئندہ کا میاب ہو تا دکھائی دیتا ہے ، لیکن ایک ضد و اَنا ہے کہ جس کی بھینٹ سب کو چڑھایا جا رہا ہے ،اس فار مولے کے سہولت کاربننے والے کل اس کا ہی شکار رہے ہیں ،لیکن یہ بھول رہے ہیں کہ دوبارہ بھی زیر عتاب آسکتے ہیں

،یہ وقت بدلتے اور ہوائوں کا رُخ تبدیل ہوتے زیادہ دیر نہیں لگا کرتی ہے ،اس حوالے سے شیخ رشید کا کہنا بالکل بجا ہے کہ پا کستانی سیاست کے بارے کچھ بھی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے،یہاں پر ایک چوک میں زندہ باد کے نعرے لگانے والے اگلے چوک میں مردہ باد کے نعرے لگانے لگتے ہیں،اتحادی حکومت جو کچھ خود کررہی ہے اور جو کچھ دوسروں کے اشاروں پر کیا جارہا ہے ،اس کا سارا خمیازہ تو آئندہ انہیں ہی بھگتنا پڑے گا ۔
اہل سیاست نے اپنے ماضی سے کچھ سیکھا نہ ہی کچھ سیکھنا چاہتے ہیں ،اس لیے بار بار اپنی پرانی غلطیاں ہی دھرائے جارہے ہیں ، انہوی نے کل بھی دست گریباں ہو کر اپنے ساتھ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچایا ہے ،یہ آج بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست گریباں ہو کر جمہوریت مخالف قوتوں کا ہی فائدہ کررہے ہیں ،لیکن اس ساری لڑائی میں عام عوام پستے جارہے ہیں ، ایک طرف بڑھتی مہنگائی ،بیروز گاری نے عوام کا جینا حرام کررکھا ہے تو دوسری جانب سیاسی محاذ آرائی میں بھی عوام پر ہی تشدت کیا جارہا ہے

، عوام جائیں تو جائیں کہاں اور کہاں جا کر فریاد کریں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں ،عوام کے مسائل کا تدارک تو در کنار اسے حق احتجاج سے بھی محروم کردیا گیا ہے ،حکمران اتحاد سے لے کر ادارتی قیادت تک سب ہی عوام کی باتیں کرتے ہیں ،مگر عوام کے مسائل کا تدارک کیا جارہا ہے نہ ہی حق رائے دہی دیا جارہا ہے ،اُلٹا مزید دبایا جارہا ہے ۔
عوام کب تک دبائو بر داشت کر یں گے اور کب تک ظلم و تشدت برداشت کرتے رہیں گے ،عوام آئے روز کی محاذ آرائی اور لڑائی جھگڑوں سے تنگ آچکے ہیں ،عوام کیلئے دو قت کی روٹی کا حصول مشکل ہو گیا ہے ،جبکہ اہل قیادت کو اپنی انتقامی کاروائیوں سے ہی فر صت نہیں ہے ،سیاسی قیادت جیسے عوام سے بے غرض دکھائی دیتی ہے ،اس طرح ہی عوام نے بھی سیاست میں دلچسپی لینا ہی چھوڑ دی ہے ، عوام جان چکے ہیں

کہ اس کھیل کے اصل کھلاڑی کون ہیں اور کون آلہ کار بن کر عوام کو بے وقوف بنارہے ہیں ،اہل سیاست کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،سیاسی معاملات سیاسی انداز میں ہی حل کرنا ہو ں گے ، سیاست سے مائنس کرنے اورطاقت سے مخالفین کو دبانے سے معاملات حل ہوں گے نہ ہی سیاسی وفاداریاں بد لوانے سے کوئی سیاسی پارٹی ختم ہو پائے گی،اس لیے آزمائے ناکام فارمولوں کے بجائے مذاکرات کے کامیاب مارمولے پر ہی عمل پیراں ہو نا چاہئے،

اس حوالے سے ملک کے سارے ہی سٹیک ہو لڈر کو ایک دوسرے سے بات کرنا ہوگی،ایک دوسرے کی غلط فہمیاں رفع کرنا ہوں گی ،گر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو رہی ہے تو اس سے اپنی غلطی کا ادرک کرتے ہوئے تلافی کرنا ہو گی، اگر آپ کے اپنے ہی خلاف ہو جائیں تو انہیں طاقت سے زیر نہیں کیا جا تا ،بلکہ غلط فہمیاں رفع کی جاتی ہیں ،کیو نکہ اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہی نہیں ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں