اس دور میں جینا مشکل ہے ! 45

استحکام پا کستان کا خواب!

استحکام پا کستان کا خواب!

اس ملک میںتحریک ِ انصاف حکومت سمیت جو بھی حکومت آئی اور اپنی مدت پوری نہیں کی ہے،اس نے اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد واویلا شروع کر دیا کہ اسے مدت پوری نہیں کرنے دی گئی ،ماضی میںنواز شرف اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد ہر جگہ کہتے سنائی دیئے کہ مجھے کیو ں نکالااور اب عمران خان کہہ رہے ہیں کہ میری حکومت سازش کرکے کیوں گرائی گئی ؟ اگرسوچا جائے تو انتہائی بدنصیبی ہے

کہ عوام کی منتخب حکومت گرادی جائے اور نکالے جانے والے کو معلوم بھی نہ ہو پائے کہ اسے کیوں نکالا گیاہے ؟ حکومتوں کے رخصت کیئے جانے والے اس کھیل کی اصل وجہ اپنے آئینی حدود اور اختیا رات سے تجاوز ہے، یہ تجاوز جب تک ہوتا رہے گا ،یہ رخصتی کا کھیل بھی اسی طرح جاری رہے گا، اس کھیل کاکسی ادارے کوذمہ دار ٹہراناجتنا آسان ،اتنا ہی رخصتی کے کھیل سے سبق حاصل کرنا مشکل ہے۔
ہر دور اقتدار میں جب بھی کسی جمہوری حکومت کی رخصتی ہوئی ہے ،اس کے پیچھے کسی نہ کسی غیر جمہوری قوت کا ہاتھ رہا ہے،پی ٹی آئی حکومت کی رخصتی کا عمل بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، مگر اس بار طریقہ کچھ مختلف رہا ہے ،اس کی سمجھ عوام کے ساتھ خود پی ٹی آئی قیادت کو بھی بعد میں آئی اور جب تک سمجھ آئی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی ،جبکہ دوسری طرف جن کو اقتدار ملا ،انہیں بھی بعد میں ہی سمجھ آیاکہ اُن کے ساتھ بھی بڑا ہاتھ ہی ہوا ہے ،پی ڈی ایم کو حکومت دیے کر اُن کی ساری مقبولیت چھین لی گئی ہے ۔
اگر حقیقت پر مبنی حالات کا تجزیہ کیا جائے تواس کھیل سے تحریک ِانصاف کے گراف اور مقبولیت میں اضافہ ہی ہوا ہے اور حکومتی اتحاد کو ووٹ بنک میں کمی کا سامنا ہے،اگر دیکھا جائے تو اس وقت بظاہراتحادی جماعتیں اقتدار کی غلام گردشوںسے لطف اندوز ہو رہی ہیں،لیکن اپنی ناقص کا رکردگی کے باعث اپنی ساکھ بالکل کھو چکی ہیں ، انہوں نے اپنے ڈیڑھ سالہ دور اقتدار میں خود کو بچانے اور انتقامی سیاست کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا ہے ، اس لیے اب عوام کی عدالت میں جانے سے گریزاں ہیں ،جبکہ تحریک ِانصاف کا مطالبہ انتخابات کا انعقاد رہا ہے

،اتحادی حکومت جب انتخابات میں پی ٹی آئی کا مقابہ نہیں کر پائی تو پی ٹی آئی کی توڑ پھوڑ کر نے پر لگ گئی ہے ، پی ٹی آئی قیادت کو مائنس کر نے کیلئے سارے حربے آزمائے جارہے ہیں ، اس سے شایدجائزو ناجائز کرکے اقتدار تو حاصل کرلیا جائے ،مگر اپنی کھو ئی ساکھ بھال نہیں کی جاسکے گی ۔
حکمران اتحاد کو اپنی ساکھ کی کوئی پرواہ ہے نہ ہی عوام کا کوئی احساس ہے ، وہ اقتدار کیلئے ہر چیز دائو پر لگانے کیلئے تیار دکھائی دیتے ہیں ،حکمران سمجھتے ہیں کہ عوام اقتدار میں رہنے والوں کے ہی ساتھ ہیں،یہ لوگ جو ان کی تقریبات ،جلسے جلوس میں شامل ہوکر شیر آیا شیر آیا کے نعرے لگا رہے ہیں یا بھٹو آج بھی زندہ ہے کا واویلا کررہے ہیں ، یہ سارے عوام نہیں ہیں، یہ نعرے لگانے والے ،دھمالیں ڈالنے والے ، بریانیاں کھانے والے بہت کم لوگ ہیں ، ملک بھر میںخاموش ووٹر کی ایک بڑی تعداد ہے

کہ جنہیں بار بار آزمائے ہوئی قیادت سے کوئی اُمیدکوئی غرض نہیں ہے ، ان محبان کا اصل مسئلہ مہنگائی ، پٹرول بجلی گیس ہے، انہیں ضرورت ہے کہ آٹا ،چینی ،گھی،دودھ،گوشت تو ایک طرف دالیں ہی قوت خرید کے مطابق ملیں، لیکن ان عوامی مسائل کی جانب حکمران قیادت کی کوئی توجہ نہیں ہے ، اتحادی قیادت کسی نہ کسی حیثیت سے اقتدار انجوائے کر نے میں ہی لگی ہوئی ہے، اگر اتحادی قیادت مل کر بھی عوام کے مسائل کا تدارک نہیں کر پائیں تو پھر الیکشن کے بعد ان میں سے آنے والی حکومت سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے ؟
اس بات پرہر سیاسی جماعت کے قائدین متفق ہیں کہ قومی مفاد میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو سرجوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے،خود وزیر اعظم اورعسکری قیادت بھی سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کا مشورہ دیتے رہتے ہیں،حال ہی میں سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی افہام تفہیم کا مشورہ دیا، لیکن اس میں بڑی روکاوٹ الیکشن بن رہا ہے،ہر سیاسی جماعت ہی عام انتخابات میں خود کو کامیاب دیکھنا چاہتی ہے، مگر اس وجہ سے خوفزدہ ہے

کہ کہیں کوئی بڑا فیصلہ کرنے سے ان کا ووٹر یا عوامی رائے ان کے مخالف نہ ہوجائے، خدارا، اپنی ذات سے نکل کرملک کا سوچیں ، ریاست کی بہتری پر توجہ دیںاور مائنس پلس کی گیم سے باہر نکلیں،اس سیاسی دنگل اور انتشار کے باعث ہم آگے جانے کے بجائے پیچھے ہی جارہے ہیں،یہ صورتحال سیاسی لڑائی اور نفرتوں کو ختم کرنے کا تقاضا کررہی ہے، اگر سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے مزید دیر کردی تو حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جائیںگے ، ملک میںاستحکام کبھی کسی نئی پارٹی کا نام استحکام پا کستان رکھنے سے نہیں آتا ،بلکہ سیاسی استحکام لانے سے آتا ہے ،ملک میں جب تک سیاسی استحکام نہیں آئے گا ، استحکام پا کستان کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں