اس دور میں جینا مشکل ہے ! 42

اپنے سائے میں رہو، غیر سے کیا مانگتے ہو !

اپنے سائے میں رہو، غیر سے کیا مانگتے ہو !

اس ملک میںہرسال ایک ہی بات سننے کوملتی ہے کہ بجٹ عوام دوست ہوگا، عام آدمی کی فلاح کا خیال رکھاجائے گا ،غریب پرکوئی بوجھ نہیں ڈالاجائے گا، یہ ڈائیلاگ سنتے سنتے عام آدمی کے کان پک گئے ہیں، لیکن غریب کی کہیں سنوائی ہوئی نہ ہی کوئی رلیف دیا گیا ، بلکہ ہر بار غریب پر ہی سارا بوجھ ڈال دیا جاتا رہاہے،

غریب پربوجھ کایہ حال ہے کہ آٹے کا20کلو کاتھیلا چھ سوروپے سے بڑھتے برھتے بائیس سوروپے سے زائد کا ہوچکا ہے، پٹرول ڈیڑھ سوروپے فی لیٹر سے بڑھ کر دوسو باسٹھ روپے فی لیٹر ہوگیا ،گھی اورمرغی کے گوشت کی قیمتیں ناقابل برداشت سطح تک بڑھ چکی ہیں ،غریب سے دال کھانے کاحق بھی چھین لیاگیا ، اس کے بعد بھی دعویٰ کیاجارہاہے کہ غریب پربوجھ نہیں ڈالاجائے گا۔
حکمران اتحاد کے تمام تر دعوئوں کے باوجود عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہی ہورہا ہے، خود وزیراعظم بھی کہہ رہے ہیں کہ مہنگائی اتنی ہے کہ غریب آدمی کا پچاس ہزار میں بھی گزارا نہیں ہورہاہے،لیکن سوال یہ ہے کہ آپ نے اپنے دور اقتدار میں عام آدمی کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے کیا عملی اقدامات کررہے ہیں؟اس حکومت نے غربت، افلاس، بھوک، ننگ، بے روزگاری، مہنگائی، کرپشن، ناانصافی اور ظلم کے سوا کچھ بھی نہیں دیا ہے، پی ڈی ایم کو جس طرح جلد بازی میںحکومت پر قبضہ دلوایا گیا،

اس کا تقاضا تھا کہ مالیاتی پالیسی کے فریم ورک کے ذریعے افراطِ زر کے دبائو کو روکنے کی طرف فوری توجہ دی جاتی اور حکومت قیمتوں کو مستحکم کرنے، کرنسی کی سپلائی کو کنٹرول کرنے اور اشیائے ضروریہ کی موثر ریگولیشن کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے جاتے، لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا ،اتحادی حکومت نے اپنی ساری توانائی معاشی معاملات سلجھانے کے بجائے سیاسی انتقام پر ہی مرکوز رکھی ہے۔
یہ حکمران اتحاد کی ناقص پا لیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ عوام کو رلیف دیے پائے نہ ہی آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرپائے ہیں،ایک طرف بڑھتی مہنگائی ،بے روز گاری کے ہاتھوں عوام مررہے ہیں تو دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام میں ناکامی پر پا کستان دیوالیہ ہوسکتا ہے، اس کی تصدیق خواجہ آصف اور مفتاح اسماعیل بھی کررہے ہیں ،لیکن وزیر خزانہ اسحاق ڈار ماننے کیلئے تیار ہی نہیں ہیں

، وہ جب سے آئے ہیں ،ایک ہی بات دہرائے جارہے ہیں کہ پا کستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا ،تاہم اب پانی سر سے گزرنے لگا ہے تو فرما رہے ہیں کہ ہمارے خلاف جیو پولیٹکس ہورہی ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے، پاکستان کو بلیک میل کیا جارہا ہے، آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سری لنکا بنے تو مذاکرات کیے جائیں گے۔
یہ حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف مصیبت زدہ ممالک کو غلام بنانے کا کام ہی کرتا ہے، لیکن ہمارے وزیر خزانہ کی سمجھ میں بات زرہ دیر بعد ہی آئی ہے ، آئی ایم ایف کیا کررہا ہے ،اس سے قطع نظر دیکھنا ہے کہ ہم کیا کررہے ہیں ؟اگرْ آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو ہمارے وزیر خزانہ کے پاس کوئی پلان بی موجود ہے؟ ہمارے وزیرے خزانہ کے پاس زبانی کلامی دعوئوں کے علاوہ کوئی دوسرا پلان موجود ہی نہیں ہے ،وہ دن رات جاگ کر وزیر اعظم کو اپنی شب و روز محنت کا یقین دلانے کے علاوہ کچھ بھی نہیں کررہے ہیں

،اگر واقعی کچھ کررہے ہوتے تو ملک کی حالت کسی حد تک بہتری کی جانب گامزن ہو جا نی چاہئے تھی ،دنیا شور مچا رہی ہے کہ ملک ڈیفالٹ کررہاہے ،اپنے پارٹی رہنما بھی حکومتی غلط پا لیسیوں کی نشاندہی کررہے ہیں ،مگر ہمارے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ سب اچھا ہے کی مانسری بجانے میں ہی لگے ہوئے ہیں۔
یہ سب اچھا ہے کی بانسری بجانے سے سب اچھا نہیں ہو جائے گا ،اس کیلئے کوئی موثر حکمت عملی وضح کرنا ہو گی ،حکومت کو چاہیے کہ وہ کوئی متبادل حکمت عملی بنائے اور آمدنی کے ذرائع کو متنوع بنانے، برآمدات کو فروغ دینے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور بیرونی قرضوں پر انحصار کم کرنے کے لیے ایک جامع پلان بی بنائے کہ اس معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے قلیل مدتی اور طویل مدتی اقدامات کونسے کرنے ہیں،لیکن حکومت اپنے سائے میں رہو، غیر سے کیا مانگتے

ہوکی سوچ پر عمل پیراں ہونے کے بجائے اپنے سیاسی انتقام کی آگ بجھانے میں ہی لگی ہوئی ہے ،اس دور حکومت میں معیشت کی تباہی کا جتنا بھی شور مچائیں‘ ڈنکی کے ذریعے ملک سے بھاگتے نوجوانوں کی لاشیں دکھائیں، قابل اور لائق لوگوں میں پھیلتی مایوسی سے آگاہ کرتے رہیں،یہاںکسی کو کوئی فرق پڑے گا نہ ہی کسی کے کان پر کوئی جوں تک رینگے گی ،کیو نکہ ایوان اقتدار پر بزور طاقت لکھ دیا گیا ہے کہ یہ حکومت آئینی اور اس کے کرپٹ زدہ حکمران ہی قابل قبول ہیںاور وہ جب تک خود نہ چاہیں ،انہیںعوام بھی ہٹا نہیں پائیںگے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں