اس دور میں جینا مشکل ہے ! 43

قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے !

قسمت کا لکھا کون ٹال سکتا ہے !

اس ملک میں عر صہ دراز سے نجات دہندہ کا کھیل کھیلا جارہا ہے ،یہ نجات دھندہ ہر بار قوم کو کرپٹ اشرافیہ سے نجات دلانے آتے ہیں اور اقتدار دوبارہ انہیں طبقات کے حوالے کر کے چلے جاتے ہیں، اگر یہ نجات دھندہ آزمائے کو آزمانے کے بجائے با صلاحیت افراد کو موقع دیتے تو خود رسوا ہوتے نہ ہی عوام افلاس کی دلدل میں دھنستی، لیکن ہر بار پرانے تجربات کو نیا کرکے دہرانے کا انجام وہی پرانا ہی ہورہا ہے

کہ پرانے لوگ اقتدار پر قابض ہو کر اپنے ساتھ لانے والوں کیلئے بھی رسوائی کا باعث بن رہے ہیں، گزشتہ دور میں طاقت ور حلقوں نے کچھ ایسے افراد کی فہرست مرتب کی تھی کہ جن سے قوم کو نجات دلادی جائے تو ملک وقوم اقوام عالم میں سربلند کی جانب گامزن ہو سکتی ہے،لیکن ا یک بار پھر وہی ذاتی مفادات اور مصلحتیں آڑے آئیں اور ایک بار پھر اقتدار انہیں لوگوں کو سونپ دیا گیا کہ جن سے قوم کو نجات دلانے کا عہد کیا گیا تھا۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کو کیسے چلتا گیا اور کیسے پی ڈی ایم کو اقتدار سونپا گیا ہے ،اس زبر دستی کی حکومت کی آئینی مدت بھی اگست میں ختم ہورہی ہے ،لیکن اس ملک میں آئین جس طرح بازیچہ اطفال بنا ہوا ہے، اس کا تماشا پنجاب اور خیبر پختون خوا میں سب نے دیکھا ہے، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئین کے مطابق نوے دن کے اندر انتخابات ہونے تھے

،عبوری حکومتیں بھی قائم کردی گئی تھیں کہ جن کی آئینی مدت نوے دن ہی تھی، عدالت عظمیٰ نے ازخودنوٹس لیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم جاری کیا،بلکہ اس کے لیے چودہ مئی کی تاریخ بھی مقرر کردی ،لیکن پوری دنیا نے دیکھا کہ ان صوبوں میں انتخابات ہوئے نہ ہی ابھی تک عبوری حکومتیں رخصت ہوئی ہیں،اس ملک میں جس کے پاس طاقت ہے، وہ اپنی من مانی کررہا ہے

اورانہیں کوئی روکنے والا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔حکمران اتحاد کے اپنے سر پرستوں کی ہلہ شیری میں حوصلے بڑھتے جارہے ہیں،حکومت نے صوبوں میں جو کچھ کیا وہی کچھ مرکز میںبھی کرنے جارہی ہے، بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کا ہی ا رادہ رکھتی ہے، یعنی قومی اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد اسمبلی تحلیل نہیں ہوگی ،بلکہ ایک قرار داد کے ذریعے اپنی مدت میں مزید سال دو سال کی توسیع کرلے گی،

اس طرح آئین کے مطابق اکتوبر میں عام انتخابات کا امکان با آثانی ہوا میں تحلیل ہوجائے گا،یہ قیمتی مشورے حکومت کو مولانا فضل الرحمن ہی دیے رہے ہیں ، مولانا کسی صورت بھی اس بات کے حق میں نہیں ہیں کہ موجودہ حکومت رخصت ہو اور عام انتخابات کا ڈول ڈالا جائے، ویسے بھی ان کے نزدیک ملک میں امن وامان اور معیشت کی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ انتخابات کی عیاشی کی جائے،وہ عیاشی سے نہ صرف خدا کی پناہ مانگتے ہیں،بلکہ اس بچنے کے لیے کبھی کبھارتھائی لینڈبھی چلے جاتے ہیں۔
اتحادی حکومت پی ٹی آئی مائنس ہونے سے قبل انتخابات میں جانے والی نہیں ہے ،اس حوالے سے بار ہارانا ثنا اللہ اظہار خیال کر چکے ہیں کہ جب تک معاہدے کے مطابق کام مکمل نہیں ہوگا، انتخابات کا اعلان نہیں کیا جائے گا،یہ کام نومئی کے افسوسناک واقعات نے بڑی حد تک آسان کردیا ہے، اس نے ایک ہی ضرب سے پی ٹی آئی کو بکھیر کر استحکام پاکستان پارٹی کھڑی کردی ہے ،لیکن اس سے پی ٹی آئی ختم نہیں ہوئی

،بلکہ استحکام پا کستان کے نام سے موجود ہے ،اس طرح پارٹیاں پہلے ختم کی جاسکیں نہ ہی آئندہ کی جاسکیں گی ،پی ڈی ایم اپنی ٹوڑ پھوڑ بھول چکی ہے،وہ ایک بار پھر طاقتور حلقوں کی گود میں بیٹھ کر خود کو محفوظ اور بر سر اقتدار رہنے کا خواب دیکھ ر ہی ہے ، جبکہ بدلتے حالات دوسری نشاندہی بھی کرنے لگے ہیں ، پس پردہ ملاقاتیں اور باتیں بھی ہونی لگی ہیں ، سیاسی تاریخ شاہد ہے کہ ایک پارٹی نے طاقتور حلقوں کے ساتھ مل کر دوسری پارٹی کے ساتھ جو کچھ کیا ،وہی کچھ اس کے ساتھ بھی ہوتاہے

، اس وقت جس طرح کی بدترین فسطائیت حکومت اپنے مخالفین کے ساتھ کررہی ہے ، اس کا خمیازہ سود سمیت بھگتنا پڑے گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ طاقت کے زور پر زیادہ دیر تک عوام کو دبایا جاسکتا ہے نہ ہی عوام کی رائے تبدیل کی جاسکتی ہے ، اتحادی حکومت کب تک خوف ہراس پھلا ئے گی اور اپنے سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگائے گی ،ووٹر آج بھی کل ہی کی جگہ پر کھڑا ہے ،ووٹر جانتا ہے کہ دوچار ماہ میں ان کا جبر و تشدد اور ان کی ملک گیر فسطائیت خود بخود دم توڑ جائے گی

یا پھر عوام ہی اسے معمول کی واردات سمجھ کر اس کا اثر قبول کرنا ہی چھوڑ دیں گے، اس سے قبل کہ عوام بے خوف ہوجائیں، اتحادیوں کیلئے اچھا موقع ہے کہ اپنے من منشاء نتائج حاصل کرنے کے لیے فوری انتخابات کرادیں، اگر تمام تر جبرو تشدد اور جائز و ناجائز تدابیر کے باوجود حسب توقع نتائج نہیں آتے تو پھراسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلینا چاہئے ،کیو نکہ قسمت کا لکھا بھلا کون ٹال سکتا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں