گھر کی مرغی دال برابر 46

ٹک ٹو ٹیک کرنے ہی سے، ہمارے مسائل ایک حد تک حل یوسکتے ہیں

ٹک ٹو ٹیک کرنے ہی سے، ہمارے مسائل ایک حد تک حل یوسکتے ہیں

نقاش نائطی
۔ +966562677707

جس دیش میں پرم پوجیہ مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کے جنم دین پر،عالم کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوریت کی قانون ساز نئی پارلیمنٹ کا افتتاح کیا جاتا ہو، جس دیش کے سنگھی حکمران دیش کو آزاد کرانے والے،مہاتما گاندھی کے قاتل گوڈسے کو اپنا لائق تقلید (آدرش) مانتے ہوں۔ جس دیش میں، دیش کی گوشت خور (ماساہاری) پچاس ساٹھ کروڑ جنتا کو گؤماس کھانےسےمحروم (ونچت) رکھے، اور گوشت تجارت میں ملوث ہونے کا الزام لگائے، سو کے قریب مسلمان دلت آدیواسیوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنا قتل کردیئے گئے ہوں

، اور جس دیش میں روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں گؤماتا کا قتل عام کرتے ہوئے، عرب کھاڑی کے مسلمانوں کو گؤماتا کا گوشت کھلاتے ہوئے اس دیش کے ھندو تاجر سنگھی حکمران سے مل کر، ڈالر کمانے میں منہمک ہوں، اوراپنے وقت کے ترکاری (سہاکاری) کھانے والے ملک کو سابقہ کئی سالوں سے عالم کا گؤ ماس ایکسپورٹ (برآمد) کرنے والا چمپین ملک بنائے ہوئے ہوں، اس ملک میں مہاتما گاندھی کا وہ اصول،”بے سبب طمانچہ مارے جانے پر،اپنا دوسرا گال،طمانچہ مارنے والے کے سامنے پیش کیا جائے”،

کے بجائے آسمانی سناتن دھرم،وید، بائبل، قرآن کے ذریعہ پرمیشور، گاڈ، اللہ کے فرمان “دانت کے بدلے دانت، جان کے بدلے جان”، لیتے ہوئے، معاشرے کو ظالموں کے ظلم سے نجات دلانے کا وقت ہے۔یہ آرایس ایس بجرنگ دل ھندو سینا والے جنونی سنگھی نوجوان، مہان مودی یوگی، شیوراج والے سنگھی حکومت کےسابقہ 9 سالہ سنگھی رام راجیہ میں، دیش کی غریب، بے کس مسلم دلت آدیواسی جنتا پر، کس اقسام کے ظلم بےجا ڈھا چکے ہیں یہ دیش کی ھندو عام جنتا سمیت سب کو معلوم ہے۔

امریکی کانگریس میں جینوسائیڈ واچ کی طرف سے پیش کہ گئی ریورٹ میں، بھارت میں ہونے والی ممکنہ نسل کش قتل عام کے پیش نظر، 2024 عام انتخاب سے پہلے، کسی بھی صورت عام انتخاب جیتنے، مسلم کش فساد رونما کرنے کی سنگھی سازش کا تذکرہ آچکا ہے

ایسے میں شدت پسند ھندو تنظیموں کی طرف سے، اپنے ھندو اکثریتی نوجوانوں کو، منظم انداز آتشی ہتھیار چلانے تک کی تربیت و تدریب دئیے جانے کا کیا مطلب ہے؟ 2024 عام انتخاب کو مسلم منافرتی ماحول میں کروانے کے لئے،ھندو شدت پسند تنظیموں کی طرف سے مختلف نوعیت منظم انداز کام ہورہا ہے۔ ایک طرف جھوٹ افترا پروازی سے کام لیتے ہوئے، سائبر میڈیا پر مسلم مخالف مواد کی بھرمار روزانہ کی بنیاد پر آپ لوڈ کی جارہی تھی

ہی، اب جھوٹ افتراپروازی پر مبنی کیرالہ اسٹوری، اجمیر 92، 72 حوریں فلم بنواتے ہوئے اور سنگھی حکومتی چھتر چھایہ میں، ریلیز کرواتے ہوئے، منظم انداز مسلم مخالف منافرت پروان چڑھائی جارہی ہے۔اوپر سے ہزاروں سالہ،اپنے سیکیولر اقدار والے چمنستان بھارت کی عدلیہ و قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، معمولی معمولی جرائم پر دانستہ مسلمانوں کے گھروں کو بلذؤز کرتے ہوئے، امن و شانتی سے رہنے والے، ہم مسلمانوں کے جذبات کو دانستہ بھڑکایا جارہا ہے۔ تاکہ کسی نہ کسی بہانے ھندو مسلم فساد بھڑکانے ہوئے، اسی مسلم منافرتی ماحول میں، 2024 انتخاب کو جیتا جاسکے۔

اس ضمن میں عرض ہے کہ ایسے غیر قانونی بلڈؤز کئے گئےگھروں کےمقدمات کو، کسی اچھے ماہر وکیل کی معرفت عدالتوں میں لمبی قانونی لڑائی لڑی جائے اور کوشش کی جائے ان سنگھی مودی یوگی شیوراج کے سیاسی حکم پر، مسلم گھروں کو بلڈؤز کرنے کا حکم جاری کرنے والے ضلع مجسٹریٹ کی تنخواہ سے جرمانے ادا کرانے کے فیصلے حاصل کئے جائیں، تاکہ مستقبل میں سیاسی لیڈروں کے حکم بے

جا پر، مجسٹریٹ غلامانہ روش سے پرہیز کرتے پائے جائیں گؤماس ممانعت کا تعلق جہاں تک ہے ھندو بھائیوں کے مذہبی جذبات کا احساس رکھتے ہوئے، ہم گؤماس ممانعت (پرتیبندھ) ہٹانے کے بجائے، پورےبھارت میں ایک جی ایس ٹی ٹیکس نظام جیسے، پورے بھارت میں یاتو گؤ ماس مکمل ممانعت ہونی چاہئیے اور گؤماس ایکسپورٹ بھی بند کیا جانا چاہئیے۔ یا پورے بھارت میں، ایک قانون کے تحت، جس کا دل کرے اسے کھانے کی اجازت ہونی چاہئے۔

سنگھی رام راجیہ کے مہا شکتی سالی مودی مہاراج کی چھتر چھائہ میں بی جے پی زمام حکومت والی کرناٹک میں تو، گؤماس ممانعت ہے تو کرناٹک کے پڑوسی بی جے پی راجیہ میں دھڑلے سے قانوناً گؤماتا کو نہ صرف کاٹا اور بیچا جاتا ہے۔ بالکہ تعجب لگتا ہے، جس بی جے پی حکومتی کرناٹک میں گؤماس کاٹنے بیچنے کی ممانعت ہے اسی راجیہ میں گؤماتا کو کاٹ کاٹ کر، اسکا ماس پڑوسی بی جے پی راجیہ گوا بھیج وہاں کے لوگوں کو کھلایا جاتا ہے
جہاں تک سنگھی شدت پسند نوجوانوں کی آتشی ہتھیار تربیت و تدریب کا مسئلہ ہے، اس کے توڑ کے لئے، بھارت بھر کے تمام قانونی طور چل رہے مدارس مکاتب و اسکول کے بچوں کو، دستور ھند میں ہر بھارتیہ شہری کو دئیے گئے حقوق کے تحت، مدافعتی تربیتی کورسز شروع کرنے کی ایک ساتھ رجسٹرڈ وکلاء کی خدمات حاصل کر، اجازت حاصل کی جائے۔ اور پورے بھارت کے اسکولوں مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو جوڈو کراٹے ، لٹھ باز اکھاڑہ دفاعی حفاظتی تربیت و تدریب دلوانے کا انتظام کیا جائے۔

جب سنگھی ھندو بچوں کو خود حفاظتی تربیت کے نام حملہ آوری کی تدریب دینے کی اجازت مل رہی ہے تواسی قانون کی رو سے، ہم مسلمانوں کو بھی اپنے بچوں کو خود حفاظتی تدریب حاصل کرنے کی اجازت ملنی چاہئیے۔اجازت ملیگی نہیں، یہ تصور کرکے اجازت ہی نہ مانگی جائے یہ ہم مسلمانوں کا تفکر صحیح نہیں ہے۔ اور بالفرض محال سنگھی ذہنیت، مقامی ضلع مجسٹریٹ ہم مسلمانوں کو خود مدافعتی ہنر سیکھنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو ماہرین وکلا کی خدمات حاصل کرتے ہوئے، عدلیہ سے گوہاڑ لگائی جاسکتی ہے۔ ہمیں امید ہے بھارت کے 30 کروڑ ہم مسلمانوں کی نیابت کرنے والے ارباب حل و عقل اس سمت توجہ مبذول کرتے پائے جائیں گے۔ وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں