اس دور میں جینا مشکل ہے ! 89

ملک میں ایک ہی قوت ہے !

ملک میں ایک ہی قوت ہے !

سانحہ نومئی کے حوالے سے فوج کی طرف سے بار بار اعلان کیا جا چکا ہے کہ عسکری تنصیبات پر حملے کرنے والے اور ان کی اعانت و رہنمائی کرنے والے تمام لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا،اس حوالے سے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ و آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمے قائم ہوں گے اور انہیں فوجی عدالتوں میں مقدموں کا سامنا کرنا پڑے گا، اس فیصلہ کی توثیق وفاقی کابینہ متفقہ طورپر کرچکی اور قومی اسمبلی نے بھی فوجی عدالتوں کی حمایت میں قرار داد منظور کر لی ہے،تاہم یہ معاملہ اعلی عدلیہ میں چلاگیا ہے ،اب دیکھنا ہے کہ اعلی عدلیہ کا فیصلہ کس کے حق میں آتا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ نومئی کو جو کچھ ہوا ،نہیںہو نا چاہیے،اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ، لیکن یہ معاملہ خالی مذمتی کاروئیوں سے در گزر ہونے والا نہیں ، ملوث افراد کے خلاف کاروائی ضروری ہے ،اس حوالے سے فوجی عدالتوں میں مقدمے چلانے کی تجویز بنیادی طور سے فوج کی کور کمانڈر کانفرنس کی طرف سے آئی تھی، حکومت اور پارلیمنٹ فوج کے موقف کو تبدیل کروانے کے لئے اپنا کردار ادا کر سکتی تھیں،

لیکن سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے حکمران سیاسی پارٹیوں نے فوج کے موقف کی تائید و حمایت کرنے میں ہی عافیت سمجھی ہے،سینیٹ میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور بعض دیگر سینیٹرز نے ضرور فوجی عدالتوں میں شہریوں کے مقدمے بھیجنے کی مخالفت کی، لیکن اس موقف کو سرکاری طور پرکوئی پذیرائی نصیب نہیں ہوئی، یہی وجہ ہے کہ اس معاملہ میں سپریم کورٹ آئینی بالادستی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے اہم ترین فورم کے طور پر ہی باقی بچا ہے۔
یہ کتنی عجب بات ہے

کہ اس ملک میں سیاسی مزاحمت کی قوت اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ کسی بھی سطح پر جابرانہ اور استبدادی عزائم کے خلاف کوئی ردعمل ہی سامنے نہیں آرہا ہے ،تاہم سیاسی اور ابلاغی سطح پر خاموشی کے باوجود عدالت عظمیٰ میں چاردرخواستیں جمع ہو گئیں، ایک درخواست تحریک انصاف قیادت کی جانب سے ہوئی ،جبکہ دوسری سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شہری کی جانب سے تھی ،اس پر اعتراضات کر کے واپس کر دیا گیا

، لیکن اہم واقعہ یہ ہوا کہ پاکستان کے بزرگ وکیل اور پارلیمان کے سابق ارکان بیرسٹر اعتزاز احسن، لطیف کھوسہ اور اس کے بعد عدالت عظمیٰ کے سابق سربراہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے بھی اپنے وکیل کے ذریعے اس قانون کے خلاف درخواست جمع کرا دی،گویا اب مدعی اور منصف دونوں ہی عدالت عظمیٰ سے تعلق رکھتے ہیں، ان تمام درخواستوں میں فوجی عدالت میں سویلین کے مقدمات کوآئین اور انصاف کے بنیادی تصور کے خلاف قرار دیا گیا ہے۔سپریم کورٹ میںفوجی عدالتوں میں سویلین افراد کے خلاف مقدمات پر سماعت شروع ہونی سے قبل ہی جسٹس فائز عیسیٰ نے اعتراض اٹھا دیا ،جس کے نتیجے میں سماعت ہی نہ ہو سکی اور بنچ ٹوٹ گیا، اب ایک نیا سات رکنی بنچ کیس کی سماعت کررہا ہے،

جہاں تک فوجی عدالتوں کا تعلق ہے تو ان کا تعلق بنیادی انسانی حقوق سے ہے، ماضی میں بھی ایسی کوششیں کی جاتی رہی ہیں، لیکن انہیں کسی بھی شکل میں نظام انصاف کے طور پر تسلیم نہیںکیا گیا، فوجی عدالتوںکو مارشل لا حکومتوں کے درمیان ہی قائم کیا گیا کہ جب دستور اور آئین معطل رہا ہے، لیکن اس بار ایک سیاسی حکومت نے نہ صرف آرمی ایکٹ کے تحت عام شہریوں پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی قرارداد منظور کر کی ہے،بلکہ اس کے خلاف عدلت میں درخواست دینے والوں کے ساتھ اعلی عدالیہ سے بھی کہا جارہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کی حمایت کی جائے ،تاہم اس جبرودشدت کے ماحول کے باوجود حساس لوگوں کے ضمیر زندہ اور وکلا برادری متحرک دکھائی دیتی ہے ہیں،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس جبر میں بھی انصاف سے پر اُمید ہیں۔
ایک جمہوری معاشرے میںکبھی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا کہ کوئی سیاسی حکومت فوجی عدالت کے قیام کو نہ صرف پارلیمانی توثیق فراہم کرے گی ، بلکہ ا س کے قیام کیلئے سر دھڑ کی بازی بھی لگادیے گی ، اتحادی اپنے اقتدار کیلئے اپنی وفاداری کا یقین دلانے میں سب کچھ کر گزر رہے ہیں، انہیں آئین وقانون کی پاسداری کا خیال ہے نہ ہی جمہوری رویات کی پاسداری کا خیال ہے ، اس کش مکش میں ملک کے تین اہم ترین اداروں میں طاقت کے توازن کامعاملہ بھی سامنے آ گیایا ہے، فوجی عدالتوں میں مقدمات پر فوج نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے، حکومت اور پارلیمنٹ بھی فوج کا ساتھ دینے کا اعلان کرچکی ہیں

،اب سپریم کورٹ کو ہی طے کرنا ہے کہ کیا ملکی معاملات میں فوجی اختیار کی حدود مقرر کرنے کا حوصلہ کر سکتی ہے؟اگر اس معاملہ میں سپریم کورٹ کوئی ٹھوس اور دو ٹوک حکم جاری کرنے میں ناکام رہتی ہے تو خلق خدا کی زبان پر آئی ہوئی اس بات کی تصدیق ہو جائے گی کہ ملک میں اصل قوت صرف ایک ہی ہے اور اس کے سامنے کوئی دوسری قوت ٹہر نہیں سکتی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں