امریکا بھارت ڈو مور کا اعلامیہ !
پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے مثال قربانیاں دی ہیں،ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرکے ایک مثال قائم کی ہے، عالمی برادری بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کوششوں اور قربانیوں کو بار ہا تسلیم کرتی رہی ہے،اس کے باوجو انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور امریکی صدر جو بائیڈن ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں سرحد پار دہشتگردی اور ’پراکسی گروہوںکی مذمت کرتے ہوئے پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ پا کستان یقینی بنائے کہ اس کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کی جائے گی۔
یہ حقیقت روزِروشن کی طرح عیاں ہے کہ امریکہ کی حربی مہم جوئی میں مغرب کا ساتھ دے کر پا کستان نے خود کو طویل مدتی خطرات اور معاشی مشکلات سے دوچار کیا ہے،پا کستان نے پچھلے چالیس سال کے دوران دو افغان جنگوں میں امریکہ کا ساتھ دیا ، یہ ہماری جنگیں نہیں تھیں ،مگر امریکہ کیلئے اپنی جنگیں بنا کر خود کو دہشت گردی کا ہدف بنالیا ہے ،پا کستان کو آج جس دہشت گردی کا سامنا ہے
،یہ امریکہ اتحاد کاہی شاخسانہ ہے ،پا کستان دہشت گردی کی شکل میں امریکی رفاقت کی قیمت چکا رہا ہے ،جبکہ امریکہ دہشت گردی کے خاتمہ میں پا کستان کا ساتھ دینے کے بجائے پا کستان کے دشمن بھارت کے ساتھ مل کر پا کستان ہی کے خلاف علامیہ جاری کررہا ہے ۔یہ بھارت اور امریکہ کا مشترکہ اعلامیہ پاکستان پر دباو ڈالنے کی کوشش ہے، پاکستان کو اپنا ذکر پراکسی جھگڑوں‘ دہشت گردی اور دیگر منفی حوالوں سے کرنے پر اس اعلامیہ کی سخت مذمت کرنی چاہیے،لیکن ہمارے حکمرانوں کو اپنے سیاسی مخالفین کو مائنس کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے ،حکمران اتحاد ایک طرف اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے میں لگے ہوئے ہیں تو دوسری جانب اعلی عدلیہ سے محاز آرائی شروع کر رکھی ہے
،ملک میں جاری سیاسی و معاشی عد م استحکام کے باعث بیرونی قوتوں کو بھی پا کستان پر دبائو ڈالنے کا موقع مل رہا ہے،اس دبائو کے سامنے ہماری خارجہ پا لیسی اور وزیر خارجہ دونوں ہی بالکل ناکام نظر آتے ہیں ،وزیر خارجہ بلاول بھٹو پچھلے ایک سال میں امریکہ کے متعدد دورے کر چکے ہیں، اس کے باوجود امریکہ بھارت کی ہی زبان بول رہا ہے اورپاکستان کے دفتر خارجہ حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے
کہہ رہے ہیںکہ ہم یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ مشترکہ بیان میں کیے جانے والے دعووں سے دہشت گردی کے خلاف لڑنے کا عالمی عزم کیسے مضبوط ہو گا۔عالمی برادری دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کیلئے مو ثر اقدام کر نے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ،جبکہ طاقتور ممالک دہشت گردی کے بیانیہ کو اپنے حصول مقاصد کیلئے کمزور ممالک کے خلاف استعمال کررہے ہیں ،دہشت گردی کا کون شکار ہے اور دہشت گردوں کی کون سر پرستی کررہا ہے ،یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں ،
اس کے ثبوت بھی سب کو مل چکے ہیں ،اس کے باوجود سر پرست اورسہولت کاروں کے خلاف اقدام کرنے کے بجائے انہیں ہی اپنی گود میں بیٹھا کر مشترکہ علامیہ جاری کیا جارہا ہے ، یہ عالمی اداروں کے ساتھ عالمی قوتوں کے قول فعل کا تزاد ہی ہے کہ جس کے باعث دہشت گردی کا ناسور کم ہو نے کے بجائے مزید بڑ ھتا ہی جارہا ہے ،لیکن یہ ہشت گردی کی آگ کسی ایک ملک یا ایک خطے تک محدود نہیں رہے گی ، اس آگ کے دائرے سے سر پرست و سہولت کار بھی زیادہ دیر تک بچ نہیں پائیں گے ۔
اگر عالمی دنیا دہشت گردی کے خاتمے کیلئے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اپنی دوغلی روش بدلنا ہو گی ،بھارت اپنے ملک میں انسانی حقوق کی کتنی زیادہ پامالی کررہا ہے اور اپنے ہمسائے ممالک میں دہشت گردانہ کاروائیوں میں کتنا ملوث ہے ، یہ سب کچھ دنیا کے سامنے آچکا ہے ،اس کے باوجود بھارت کو نکیل ڈالنے کے بجائے ہلہ شیری دی جارہی ہے ،جبکہ پا کستان سے ڈو مور کا مطالبہ کیا جارہا ہے ،امر یکہ کے بھارت سے مفادات جڑے ہیں تو اس کی ہی زبان بولے گا ، لیکن اس کے جواب میں ہم کیا کررہے ہیں ؟
ہمیں امر یکہ اور بھارت کے علامیہ پر حیرانگی کا اظہار کرنے اور بدل ہونے کے بجائے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسباباب کی دنیا میں اپنا مقام اور مرتبہ بنانے کیلئے خود کو مادی اعتبار سے ترقی دینا نا گزیر ہے ، لیکن یہ مادی ترقی تبھی آئے گی کہ ملک میں جب سیاسی استحکام ہو گا ، ملک میں سیاسی و معاشی استحکام لانے کیلئے تمام اسٹیک ہو لڈر کو مل بیٹھنا ہو گا ، اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے قومی مفاد میںسو چنا ہو گا ،امر یکہ اور بھارت کی بیان بازی سے بددل ہونے کے بجائے خود کو مستحکم کرنا ہو گا ، ہم جب تک کاسہ گری چھوڑ کراستحکام کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گے ،ہمیں ایسے ہی ڈو مور کے بیانیہ سے دبایا جاتا رہے گا