گھر کی مرغی دال برابر 48

ایک عظیم آزادی مشترکہ ھند کے شیر

ایک عظیم آزادی مشترکہ ھند کے شیر

مادر ہند کی آزادی کسی ایک فرقہ یا قوم کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ 1757 تا 1947 ایک لمبی صبر آزما جنگ اور بے شمار جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کا صلہ ہے۔ جس میں بلا لحاظ قوم و ملت ہندو، مسلم، سکھ اورعیسائی نے کندھے سے کندھے ملا کر حصہ لیا تھا۔ قومی ایکتا اور آپسی بھائی چارہ سے خوفزدہ ہوکر برٹش نے برادر وطن کے اندر تفریق پیدا کرنے کے لئے چانکیہ کو بھی مات دے دی ہے۔ انگریزوں نے روایتی نظریہ پھوٹ ڈالو اور راج کرو سے فرقہ پرستی کا ایسا بیج بویا جو ایک تناور درخت بن چکا ہے

جس نے ملک کے ہر شعبہ پر اپنی مضبوط گرفت کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخی حقائق کو بھی فرقہ پرستی کے عینک سے دیکھا جاتا ہے چنانچہ اسی ذہنیت کا ثمر ہے کہ وہ مجاہدین آزادی جنھوں نے تنہا تنہا برٹش سے سینہ سپر ہو کر انگریزوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا، لیکن ان کے ناموں یا کارنامے سے عام ہندوستانی شہری نابلند ہیں لیکن بعض شخصیات کی جنگ آزادی کی آرٹ گیلری میں ایسی تصویریں آویزاں ہیں جن میں کمال مصور شیر بھی ناتواں کمزور شخص کے ہاتھوں پچھڑتے ہوئے دکھائی دیتا ہے

، تاہم اس مذموم عمل سے تاریخی حقائق نہیں بدل سکتے ہیں۔ جب بھی جنگ آزادی کا تذکرہ ہوگا ایسی شخصیات کا نام بھی قلم کی نوک کے نیچے ضرور آئے گا جن کو نظر انداز کرنے کی پوری طرح کوشش کی گئی۔

شیرعلی خان مجاہد ککے زئی نے 1872ء کےدوران کالا پانی میں، چهری کے وار کرکے وائس رائے ہند گورنر جنرل لارڈ میو (جس کے نام پر لاہور کا میو ہسپتال مشہور ہے) گستاخ کو قتل کرکے تاج برطانیہ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس عظیم مسلمان پختون ہیرو کو 11مارچ 1872ء کو سر عام پهانسی پر لٹکا دیا گیا۔
غازی شیر علی خان مجاہد ککے زئی کو پھانسی کی سزا سناتے ہوئے جج نے کہا تھا کہ ہم ایسا کام کریں گے دنیا تجھے بھول جائے گی لیکن لارڈ میو کو نہیں بھولے گی اس لیے اس کے نام کا ہسپتال بنا دیا.آئیں ہم آپ کو اپنے اس غیرت مند پختون غازی شیر علی خان رحمتہ اللہ علیہ کی تصویر دیکھاتے ہیں اور اس مرد مجاہد کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور انگریزوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم غازی شیر علی خان رحمتہ اللہ علیہ کو بھولے نہیں ہے
ہم ھند و پاک بنگلہ دیش سمیت اس وقت کے متحدہ ہندستان کے ھندو مسلمانوں سکھ عیسائی بیشک اس مرد مجاہد غازی شیر علی خان کو نہیں جانتے ہیں۔ انگریز اس مرد مجاہد کا نام ہمیشہ ہمیشہ کےلیے دفن کرنا چاہتے تھے لیکن آج پھر اس نام سے سب کو آشنا کردیا جارہا ہے ابن بھٹکلی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں