گھر کی مرغی دال برابر 48

عید قربان معشیتی نقطہ نظر سے

عید قربان معشیتی نقطہ نظر سے

نقاش نائطی
۔ +966562677707

اسلام کیپیلزم ، پونجی پتی یا سرمایہ دارانہ نظام کے منافی، مساوات کی دعوت دیتا پایا جاتا ہے۔ اسی لئے منجمد و محفوظ سرمایہ پر بھی زکاة فرض کرنے کا مقصد سرمایہ کو محترک رکھنا اور اس منجمد سرمایہ کے ایک حصہ کو، غریب عوام کے استعمال میں لانا ہوتا ہے۔ کیرالہ کے پدمنابھ سوامی مندر میں کئی سو سال سے محفوظ رکھے ہوئے ڈیڑھ ٹرلین روپئیے بقدر 20 بلین ڈالر سے بھی زیادہ کے سونے چاندی ھیرے جواہرات کا ذخیرہ، کاش کہ منجمد بند صندوقوں میں محفوظ رکھنےکے بجائے، اسے تجارتی منڈی میں، سرمایہ کاری کی گئی ہوتی تو،کئی گنا ہونے والے اضافے سے، کئی کروڑ دیش کی جنتا، اس عظیم سرمائے کے معاشی منڈی میں حرکت پذیر رہنے کی وجہ سے، کروڑوں بھارت واسی، اس تجارت میں گنگا نہاتے ہوئے،

نہ صرف مالا مال ہوگئے ہوتے بلکہ مغلوں کے زمانےکے مشہور سونے کی چڑیا بھارت واقعتا” آج سونے کی چڑیا عالم میں بدستور مشہور رہتا۔ تصور کریں کئی ملکوں کی جی ڈی پی سے بھی زائد سونے چاندی ھیرے جواہرات کا یہ بھنڈار کئی سو سال سے بندصندوقوں میں محفوظ رکھنےکے بجائے، اسے خرید و فروخت بازاروں میں محو گردش رکھنے سے، بہت سے لوگوں کے ہاتھوں وہی سرمایہ گھومتے گھومتے، ہر کسی کو مستفید کرجاتا ہے

سنت ابراہیمی کی یاد تازہ کرتے عید الاضحی کے موقع پر، اپنے اپنے علاقے میں عموما کھائے جانے والے حلال جانوروں کی قربانی، اسی نقطہ نظر سے،صاحب حیثیت لوگوں کے لئے فرض کی گئی ہے بلکہ خاتم الانبیاء سرور کونین مجتبی، محمد مصطفی ﷺ نے ایک وقت تنگ دامانی دست کی وجہ، اپنے پورے آل کی طرف سے ایک دنبے یا بکرے کی قربانی کرتے ہوئے، آج کل کے متوسط خاندانوں کے لئے، اپنے پورے آل کی طرف سے ایک بکرا قربانی کرتے ہوئے، اس سنت ابراہیمی سے بہرور ہونے کا موقعہ ہر کسی کو دیا ہے

، بلکہ دوسرے ہی سال دست کشائی کے رہتے،ایک ساتھ سو اونٹوں کی قربانی کرتے ہوئے، فی زمانہ مالداروں اورتونگروں کو، انتہائی قیمتی وجیہ شکل ایک جانور کی قربانی کرنے کے بجائے، حسب حیثیت بے شمار جانوروں کی قربانی کرتے ہوئے، غرباء و مساکین کی اکثریت کو، اس سے مستفید ہونے کے دروازے وا کئے ہوئے ہے
بھارت کی آبادی سرکاری اعداد و شمار مطابق 140 کروڑ کے آس پاس ہے لیکن دوسری نوعیت سرکاری اعداد و شمار مطابق اب تک 130 کروڑ ادھار کارڈ جاری ہوچکے ہیں اور عموما 20 فیصد کم عمر بچوں کے آدھار کارڈ نہیں بنائے جاتے،اس اعتبار سے بھارت کی کل آبادی 155 کروڑ ہوتے ہوئے چائینا کی آبادی سے زیادہ تجاوز کرتے ہوئے، بھارت آبادی کے اعتبار سے، عالم کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس میں مسلم آبادی
حکومتی اعداد و شمار کے اعتبار سے 15 تا 16 فیصد اور عام تصور کے حساب سے، اجمالی طور 20 فیصد بھی تصورکیا جائے تو بھارت کی مسلم آبادی 30 کروڑ کے آس پاس ہوتی ہے۔ اس 30 کروڑ آبادی میں محتاط انداز 80 فیصد لوگوں کو غریب بھی تصور کیا جائے تو 20فیصدمتوسط و امیر مسلمان ایک سے زائد جانوروں کی قربانی کیا کرتے ہیں۔ اس اعتبار سے، 30 کروڑ مسلم آبادی کے 20فیصد 6 کروڑ مسلمان کم و بیش عید الاضحی کی مناسبت سے 6 کروڑ جانوروں کی کم از کم قربانی و صدقہ کرتے پائے جاتے پیں۔

بعض بڑے اور وجیہ شکل جانور لاکھوں میں بکتے ہیں تو پندرہ ہزار سے کم فی زمانہ قربانی بکرے بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتے۔ اس نوعیت سے اگر اجمالی طور، ہر جانور کی قیمت 20 ہزار بھی روپئیے بنتے ہیں۔ تصور کریں ایک لاکھ 20 ہزار کروڑ قیمت کے مویشیوں کی صرف بھارت کی تجارت، صرف عید الاضحی کے 3 دنوں کے اندر, اتنی بڑی معشیتی سرگرمی,عالم کے اور کس موقع پر ہوتی ہوگی؟

اور عید کے موقع قربان کئے جانے والے ان تمام جانوروں کی پرورش اس دیش کے کسان ہی کرتے ہیں اس میں بھی 80% سے 90% اس دیش کے ھندو کسان ہی مستفید ہوتے ہیں۔ اس دیش کے کسان عموما اپنی دودھ دوہتی گایوں سے پیدا ہونے والے مادہ جانوروں کی تو پرورش کرتے پائے جاتے ہیں، لیکن نر جانور بیلوں کی پرورش کرنا بوجھ سمجھتے ہوئے،اسے پیدا ہوتے ہی مار دیتے ہیں۔ اگر بھارت میں گؤماس امتناع قانون نہ ہوتا تو، یہی کسان ان جانوروں کی نر اولاد بیلوں کی اچھی پرورش کرتے ہوئے

، اسے توانا و تندرست وجیہ شکل پرورش کرتے ہوئے، سال دو سال بعد عید قربان کے موقع پر، مسلمانوں کو اچھے داموں فروخت کرتے ہوئے، اچھے خاصے پیسے بنایا کرتے تھے۔تصور کریں عید کے ایام بیچے جانے والے،ایک لاکھ 20ہزار کروڑ سے ڈیڑھ لاکھ کروڑ کی یہ گراں قدر رقم، اس دیش کی 80 فیصد ھندو کسان کے ہاتھوں میں پہنچتے ہوئے، انہیں کس قدر مستفید کررہی ہوتی؟ مانا کے اس دیش کی ھندو اکثریت کے مذہبی جذبات و آستھا کے لئے، گؤماس امتناع قانون نافذ کیا ہوتا تو ٹھیک تھا لیکن سو کروڑ ھندوؤں کے مذہبی آستھاکا استحصال کرتی بھارت پر سابقہ 9 سالوں سے حکومت کر رہی یہ سنگھی مودی یوگی

برگیڈ حکومت، چند برہمن سنگھیوں کے بڑے بوچڑ خانون میں، کروڑوں کی تعداد میں، انہی گائے بیل قبیل کے بڑے جانوروں کا قتل عام کر، اسکا ماس کھاڑی کے دیشوں میں ایکسپورٹ کرتے ہوئے، عالم کا بڑا بیف ایکسپورٹر کا اعزاز ھندو ویر سمرات مودی جی کے ماتھے پر نہ سجایا ہوتا؟ ورنہ آج اتنے وشال بھارت میں عید قربان کے موقع پر قربان کئے جانے والے 6 کروڑ جانور قیمت دیڑھ لاکھ کروڑ کی نصف رقم تو دیش کے کسانوں کے ہاتھوں پہنچ چکی ہوتی؟دراصل یہ مودی یوگی بریگیڈ سنگھی حکومت کسان دشمن برہمن پونجی پتی نظام واد حکومت ہے۔ اسی لئے تو چند ہاتھوں پر گنے جانے والے گجراتی برہمن پونجی پتیوں کو عالمی معیار کے کروڑپتی بنانے کے چکر میں مودی بریگئڈبیسیوں کروڑ ھندو کسانوں کو، یوں آپنے پونجی نواز پالیسیز سے خودکشی کرنے پر مجبور نہیں کررہی ہوتی؟

عید قربان پر ذبح کئے جانے والے جانوروں کی یہ قیمت دیڑھ لاکھ کروڑ ہے اس سے منسلک ان جانوروں کے گھاس پوس کا انتظام، اس کی نقل و حمل سے منسلک کروڑوں لوگوں کے مستفید ہونے اور قربانی بعد گوشت تقسیم نظام کے ذریعہ کروڑوں غرباء کے مستفید ہوتے پس منظر میں، کروڑوں جانوروں کے چمڑا تجارت منسلک افراد و صفائی ستھرائی نظام سے منسلک افراد و 6 کروڑ قربان ہوئے جانوروں کا ویسٹ مینجمنٹ و اسکے ری سائکلنگ نظام سے منسلک افراد کا ایک لامتناہی سمندر ہوتا ہے جو مسلمانوں کے اس عید قربان سے مستفید ہوتے ہوئے، ہفتوں مہینوں تک سیراب ہوا کرتا ہے۔

کوئی بھی معاشرہ کسی ایک فرد یا ایک طبقہ ایک ذات برادری سے نہیں،بلکہ سب کے باہم تعاون و ہم آہنگی سے ہی ترقی پذیر ہوا کرتا ہے۔ ہرسال بھارتیہ مسلمانوں کے عید قربان کی مناسبت سے، سال بھر بھارت کے مختلف گاؤں دیہات میں حکومتی تعاون سے،اچھے معیاری جانوروں کے پالن پوسن کو منظم انداز کیا جائے تو نہ صرف بھارت کے مسلمانوں کی ضرورت، چھ سات سو کروڑ مویشیوں کا حصول ممکن بناتے ہوئے،کروڑوں کسان خاندانوں کو مستفید و خوشحال کیا جاسکتا ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی قربانی جانور ایکسپورٹ کرتے ہوئے، ہزاروں کروڑ غیر ملکی زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ونا علینا الا البلاغ

سائبر میڈیا پر گردش کرتی پوسٹ

عیدالاضحی ﭘﺮ ﺍﯾﮏﺍﻧﺪﺍﺯﮮ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ 4 ﮐﮭﺮﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﮐﺎ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻫﻮتا ہے, ﺗﻘﺮﯾﺒﺄ 23 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻗصائی ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﮐﻤﺎتے ہیں۔
3 ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﻩ ﭼﺎﺭﮮ ﮐﮯ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ والے ﮐﻤﺎتے ہیں۔ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﻋﯿﺪ ﭘﺮ ﻫﻮتا ہے۔

*ﻧﺘﯿجہ :* ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ملتی ہے ﮐﺴﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﭼﺎﺭﻩ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتا ہے.
ﺩیہاﺗﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻗﯿﻤﺖ ملتی ہے۔
اربوں روپے ﮔﺎﮌﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﻻﻧﮯ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍلے کماتے ہیں۔
ﺑﻌﺪ ﺍﺯﺍﮞ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ لیے مہنگا ﮔﻮﺷﺖ ﻣﻔﺖ ﻣﯿﮟ ملتا ہے ,
ﮐﮭﺎﻟﯿﮟ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺍﺭﺏ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻫﻮتی ﻫﯿﮟ ,
ﭼﻤﮍﮮ ﮐﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﺎﻡ ملتا ہے,
یہ ﺳﺐ ﭘﯿسہ ﺟﺲ ﺟﺲ ﻧﮯ ﮐﻤﺎﯾﺎ ﻫﮯ ﻭﻩ ﺍﭘﻨﯽﺿﺮﻭﺭﯾﺎﺕ ﭘﺮ ﺟﺐ ﺧﺮﭺ ﮐﺮتے ہیں ﺗﻮ نا ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﮐﮭﺮﺏ ﮐﺎ ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺩﻭﺑﺎﺭﻩ ﻫﻮتا ہے …
یہ ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﮐﻮ ﺻﺮﻑ ﮔﻮﺷﺖ نہیں ﮐﮭﻼﺗﯽ , ﺑﻠکہ ﺁﺋﻨﺪﻩ ﺳﺎﺭﺍ ﺳﺎﻝ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﻣﺰﺩﻭﺭﯼ ﮐﺎ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,
ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﮐﻮٸی ﻣﻠﮏ ﮐﺮﻭﮌﻭﮞ ﺍﺭﺑﻮﮞ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﭘﯿسہ ﻏریبوﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻧﭩﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﮮ ﺗﺐ ﺑﮭﯽ ﻏﺮﯾﺒﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﺍﺗﻨﺎ ﻓﺎﺋﺪﻩ نہیں ہوتا ﺟﺘﻨﺎ ﺍﻟﻠﻪ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺍﯾﮏ ﺣﮑﻢ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﻮ ﻓﺎﺋﺪﻩ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ ,

ﺍﮐﻨﺎﻣﮑﺲ ﮐﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﻮﻟﯿﺸﻦ ﺁﻑ ﻭﯾﻠﺘھ ( Circulation of WEALTH) ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﮑﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﺗﺎ ﻫﮯ کہ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺣﺴﺎﺏ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﭘﺮ ﻋﻘﻞ ﺩﻧﮓ ﺭﻩ ﺟﺎﺗﯽ ﻫﮯ …☺️


اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں