قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 92

سیاست میں ٹوٹ پھوٹ کی باری !

سیاست میں ٹوٹ پھوٹ کی باری !

پاکستانی سیاست کو چلانے والوں نے اپنی ہم نوا سیاسی قوتوں میں بھی توڑ پھوڑ شروع کردی ہے، اتحادی کل تک جواپنے مخالفین کی توڑ پھوڑ کا مزا لے رہے تھے ،آج اپنے اندر ہل جل ہونے لگی ہے تو شکوئے شکایت کر نے لگے ہیں ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کو سب سے زیادہ شکایت ہے کہ مسلم لیگ (ن ) اور پیپلز پارٹی قیادت نے دبئی میں ملاقاتوں سے متعلق اب تک اعتماد میں نہیں لیا ہے،

مولا نا کا شکوہ بجا ہے ،لیکن وہ ایک پرانے زیرک سیاستدان ہیں، انہیں اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہونا چاہیے کہ اس سیاسی شطرنج میں شاطر نہایت خفیہ انداز میں کام کرتے ہیں ،مولانا فضل الرحمن حکمران اتحاد کے سربراہ ضرورہیں، لیکن اگر انہیں دبئی میں ہونے والی ملاقاتوں پر اعتماد میں نہیں لیا گیا تو اس کا مطلب خود ہی سمجھ لینا چاہیے کہ شاطروں نے اگلے سیٹ اپ میں ان کے لیے کوئی اور ہی کام رکھا ہو گا، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ( ن) کے اپنے ایجنڈے ہیں اور یہ دونوں اپنے اپنے مفادات کے تحت ہی کام کررہے ہیں۔
اس کے آثار پہلے ہی نظر آرہے تھے کہ سربراہ تحریک انصاف کے خلاف کارروائیاں ،پارٹی کی توڑ پھوڑ اور نیا گروپ بنانے کے بعد پی ڈی ایم کی بھی باری آئے گی ،لیکن اہل سیاست اپنی سیاسی تاریخ بھول جاتے ہیں کہ وقت آنے پر سب ہی کی باری لگتی ہے ، کوئی بھی سیاسی ٹوٹ پھوٹ سے بچ نہیں پا تا ہے ،کل کے ناپسند آج کے پسندیدہ اور آج کے پسندیدہ کل کے نا پسند بھی ہو سکتے ہیں،تاہم اجکل نئی صف بندی کی جارہی ہے،

اس میں کچھ پسندیدہ کو اہم رول ملے گا اور کچھ سے افسوس کے ساتھ کہا جائے گا کہ آپ کی پارٹی مطلوبہ نتائج نہیں دے سکی ہے،اس نئی صف بندی کا مولانا فضل الر حمن کو ابھی احساس ہے ،اس لیے بر وقت ہی کہا جارہا ہے کہ پی ڈی ایم ایک تحریک تھی کہ جس کی اب ضرورت نہیں رہی ہے ۔
پی ڈی ایم کے بارے پہلے ہی کہا جارتا رہا ہے کہ یہ ایک غیر فطرتی اتحاد ہے جو کہ تحر یک انصاف حکومت گرانے اور دیوار سے لگانے کیلئے بنایاگیا ، یہ دنوں مقصد جب پورے ہو گئے ہیں تو یہ اتحاد بے معنی ہو جاتا ہے

،اس جانب مولانا فضل الرحمن نے بھی اشارہ دیاہے کہ ہم نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ساتھ مجبوری میںدیا ،ورنہ ہماری الگ پالیسی ہے، گویا آنے والے انتخابات میں ان کی پرواز بھی الگ ہی ہوگی،مولانا آئندہ انتخابات میں الگ پرواز کرتے ہوئے بھی اقتدار کی بندر بانٹ سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں ،اس لیے مسلم لیگ ن) اور پیپلز پارٹی سے شکوئے میں بھی انتباہ کر رہے ہیں کہ وقت ضرورت فرنٹ پر استعمال کر نے کے بعد اقتدار کی بندر بانٹ میں پیچھے نہ دھکیلا جائے ،ورنہ مولانا میں اتنا دم ہے

کہ سارے بنے بنائے کھیل کو بگاڑ بھی سکتے ہیں ۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مولا نا کے پاس ڈنڈا بر دار فورس موجود ہے ،جو کہ پس پردہ قو توں کے اشارے پر کھیل بنانے اور کھیل بگاڑنے کیلئے ہماوقت تیار رہتے ہیں ،تاہم اس وقت سیاسی ایجنڈے میں کچھ تبدیلی کے ساتھ پی ڈی ایم کا خاتمہ کیا جارہا ہے ،لیکن اس مطلب مو لاناکو سیاسی کھیل و اقتدار سے باہر کرنا نہیں ہے ، بلکہ مولانا کیلئے انتخابات میں اور انتخابات کے بعد کچھ الگ ایجنڈا سیٹ کر دیا گیا ہے ، لیکن مولانا آئندہ اقتدار میں جہاں اپنے وعدوں کی یقین دھانی چاہتے ہیں

،وہیں دبئی ملاقات کے خدشات کا بھی تدارک چاہتے ہیں،مولانا اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں، آنے والا وقت ہی بتائے گا ،لیکن ایک بات طے ہے کہ مولانا کو اقتدار کے فوائد و نقصانات کے ثمرات کا بھار تو اٹھانا ہی پڑے گا ، اگر انہوں نے حکومت میں رہتے ہوئے کچھ اچھا کیا ہے تو اس میں ان کا حصہ ہوگا اور اگر برا کیا ہے تو اس کابھی حصہ قبول کرنا ہی پڑے گا۔سیاست میںگزرتے وقت کے ساتھ حالات و واقعات بد لتے جارہے ہیں

،لیکن ہماری سیاست کا چلن وہی پرانا ہے ، عوام کے فیصلے عوام کو کرنے دینے کے بجائے اپنے من پسند فیصلے ہی عوام پر مسلط کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ، ایک بار پھر بند کمروں میں فیصلہ سازی کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ایک بار پھر اقتدار کی بند بانٹ کی جارہی ہے ،لیکن اس بار عوام ایسا نہیں ہو نے دیں گے ، اگر عوام کو ایسے ہی زور زبر دستی سے دبایا اور دیوار سے لگایا جاتا رہا تو اس کا رد عمل بھی اتنی ہی شدت کے ساتھ آئے گا،

کیو نکہ مو جودہ صورتحال نے بے شمار نام نہاد جمہوریت پسندوں کے چہروں سے نقاب اُلٹ دیے ہیں ،اس کے باوجودمعلوم نہیں کہ یہ آئندہ کون سے نئے چہروں کے ساتھ عوام کے درمیان جائیں گے اور کس انداز میں اپنی مجبوریاں بتائیں گے، یہ اتحادی قیادت کچھ بھی کر لے ،جتنا مرضی چھوٹ کو سچ بنا کر پیش کر لے ، جتنے مرضی لیپ ٹاپ دیے ، عوام اب بار بار آزمائے کے کسی بہلا ئوئے اور بہکائوئے میں آنے والے نہیں ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں