قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 46

رقص تماشائی کی دھوم !

رقص تماشائی کی دھوم !

ملک میںایک طرف عام انتخابات کا بگل بجنے لگا ہے تو دوسری جانب ایک بے یقینی کی کیفیت بڑھتی جارہی ہے،وزیر اعظم اور ان کے رفقا کی جانب سے متعدد بار آئینی مدت پوری ہونے کے بعد اقتدار چھوڑنے کی یقین دہانی کرائی جاتی رہی ہے،لیکن عوام کو دوصوبوں میں بروقت انتخابات نہ ہونے کاایسا دھچکا لگا ہے

کہ اُن کے خداشات دور ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں ،اس صورتحال کے پیش نظر وزیر اعظم شہباز شریف نے پہلی بار قوم سے اپنے خطاب میں اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کی بات کی ہے،لیکن اس نگراں سیٹ اپ کے بارے میں بھی کہاں جارہا ہے کہ اس کی مدت طویل ہو سکتی ہے ۔
آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ حکومت نے کب جانا ہے اور نگراں سیٹ اپ نے کتنی مدت میں انتخابات کرانے ہیں ،اس کے باوجود آئین سے ماورا قدامات کے خدشات کا پایا جانا باعث تشویش ہے ،یہ سارے خدشات پی ڈی ایم کے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں اور ان کا رفع کرنا بھی حکمران اتحاد ہی کی ذمہ داری ہے ،اس کی پہلی اینٹ اس وقت رکھی گئی تھی کہ جب پی ڈی ایم نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد آئینی شرط کے مطابق نوئے روز میں انتخابات کرانے سے روگردانی کے نہ صرف راستے تلاش کرنے شروع کر دیئے تھے ، بلکہ حکومتی قیادت کھلم کھلا کہہ رہے تھے کہ انتخابات نہیں ہوں گے

،آئین کی پاسداری کے لئے جب سپریم کورٹ نے انتخابات کا حکم دیا تو اسے خاطر میں ہی نہیںلایا گیا،قانون نافذ کرنے والے اداروں‘ وزارت خزانہ اور الیکشن کمیشن کا بھی طرز عمل انتہائی مایوس کنرہا تھا،اس سے تاثر فروغ پایا کہ پی ڈی ایم ایک خاص وقت میں اپنے مقدمات ختم کرانے ،اپنے لئے انتخابی آسانیاں پیدا کرنے اور اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے تک اقتدار چھوڑے گی نہ ہی انتخابات کرائے گی۔
پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی عوام کا مطالبہ عام انتخابات کا رہا ہے ،لیکن اتحادی حکومت نے اپنے دور اقتدار میں عوامی مطالبے کو رد کرتے ہوئے اپنی مدت پوری کی ہے ،وزیر اعظم نے اب اپنی آئینی مدت پوری ہونے پر اقتدار چھوڑنے کا اعلان تو کر دیا ہے ،لیکن عوام کو پھر بھی بر وقت انتخابات ہوتے دکھائی نہیں دیے رہے ہیں

، عوام چاہتے ہیں کہ نہ صرف بروقت انتخابات کرائے جائیں ،بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کوانتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع بھی دیئے جائیں،اس انتخابی عمل سے کسی سیاسی جماعت کو نکالنے کا مطلب ہے کہ ووٹر کی ایک بڑی تعداد کو حق رائے دہی سے روک دیا جائے ،اس صورت میں انتخابی نتائج کوئی مانے گا نہ ہی نئی حکومت کبھی عوام کا اعتماد حاصل کر پائے گی۔یہ کتنی عجب بات ہے

کہ عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کو حق رائے دہی دینے سے انکاری ہیں ، ایک طرف اتحادی حکومت کی کوشش ہے کہ انتخابات میں کامیابی کی یقین دہانی تک اقتدار میں رہا جائے تو دوسری جانب مقتدرہ بھی ایک نیا تجربہ کر نا چاہتے ہیں ،وہ ایک ایسی حکومت لانا چاہتے ہیں ،جو کہ ڈمی اور بظاہر عبوری ہو ،مگر طویل عر صے تک چل سکے،اگر ایسا کوئی تجربہ کیا گیا تو سابقہ تجر بوں سے بھی بدتر ہو گا ،ایک طرف مقتدرہ اتحا دیوں میںاپنے تمام تر حمایت کھو دیے گی تو دوسری جانب عدلیہ بھی مدد گار نہیں ہو گی

،نئے چیف جسٹس سب ہی کی ساری غلط فہمیاں دور کر دیں گے ،اس لیے اتحادیوں کو جہاں اپنے ایجنڈے پر غور کرنا ہو گا ،وہیں مقتدرہ کو بھی نئے تجرابات سے گریز کرتے ہوئے ایسا کہ کر دار ادا کر نا ہو گا کہ جس کے ذریعے عوام بھر پور طریقے سے اپنا حق رائے دہی استعما ل کرسکے ،لیکن باہمی تصادم کے باعث کچھ بھی بہتر ہو تا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ۔اس وقت ملک انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے،اس مشکل سے نمٹنے کے لئے تصادم کی بجائے سیاسی سطح پر مشاورت اور اتفاق کے ساتھ قومی ایجنڈہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے،

آئین پاکستان انتخابی طریقہ کار‘ ذمہ داریوں‘ نگران حکومتوں اور سیاسی نمائندگی کے متعلق واضح رہنمائی کرتا ہے،اگر اس کے باوجود آئین میں موجود بعض خامیوں کو قانونی آڑ بنا کر غیر مبہم احکامات سے روگردانی کی جاتی ہے تواس کا خمیازہ بھی سب ہی کو بھگتنا پڑے گا ،اگر کسی کے اشارے پرپنجاب جیسا انتظام مرکز میں بھی کیا گیا

تو آئندہ انتخابات مشکوک ہو سکتے ہیں،اس شک و شبہات کا خاتمہ اتحادی جماعتوں ہی کی ذمہ داری ہے ،لیکن اتحادی جماعتیں اپنے حصول مفاد کی دوڑ میں ایسی محو ہیں کہ انہیں اپنے ہاتھ سے سب کچھ چھن جانے کا احساس ہی نہیں ہورہا ہے ، اس وقت ایوان اقتدار کی راہ داریوں میں ایک رقص تماشائی لگا ہے اور اس رقص تماشائی کی دھوم میں کسی کو کچھ بھی سنائی ہی نہیں دیے رہاہے ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں