قربانیوں سے دہشت گردی کے خلاف کا میابیاں! 48

آنے والے انتخابات یوم حساب !

آنے والے انتخابات یوم حساب !

اتحادی حکومت نے ابھی جانے کا اعلان کیا ہے، انتخابات کا اعلان نہیں ہوا ،لیکن سیاسی شاطروں نے اپنی بساط بچھا نا شروع کردی ہے ،یہ سب ہی ایک دوسرے کو مات دینے کی فکر میں ہیں، وزیراعظم شہباز شریف نے کا کہنا ہے کہ چودہ اگست سے پہلے ہی حکومت چھوڑ دیں گے اور نگراں عبوری حکومت قائم ہوجائے گی، جو کہ الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق عام انتخابات کرائے گی،لیکن ابھی تک نگراں حکومت پر بھی اتفاق رائے نہیں ہوسکا ہے، نگراں وزیراعظم کے لیے مختلف ناموں پر غور کیا جارہا ہے

،یہ زیر غور نام بھی اپنے تائیں پورا زور لگار رہے ہیں، انہیں بخوبی علم ہے کہ نگراں حکومت کی مدت طول بھی ہو سکتی ہے،جبکہ دوسری جانب شہباز حکومت شدید مخمصے کا شکار ہے کہ اپنی من منشا کانگراں سیٹ کیسے لایا جائے ، جبکہ فائنل فیصلہ تو کہیں اور ہی ہونا ہے ،اس سارے اقتدار کے کھیل میں فیصلہ کن کردار عوام اور ان کے ووٹ کا ہے، لیکن انہیں تو یکسر ہی نظر انداز کیا جارہا ہے۔
اتحادی حکومت جب سے آئی ہے،عوام کے اصل ایشو ز پر توجہ مر کوز کر نے کے بجائے عوام کو ایک کے بعد ایک نئے ایشو کے پیچھے لگا رکھا ہے ،اتحادی حکومت جاتے جاتے وہی پرانا سایفرکا کھیل کھیلنا چا ہتی ہے ،جوکہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کھیلا گیا تھا،اس بار اس کا مقصد ایک طرف بیرونی دبائو میں کمی لانا تو دوسری جانب پی ٹی آئی قیادت کو راستے سے ہٹانا ہے ،اتحادی گھبراہٹ میں ایسا کھیل کھلنے میں لگے ہیں

کہ اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہونے کا زیادہ اندیشہ ہے ، لیکن اتحادیوں کے سر پر ایک ہی بھوت سوار ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کو مائنس کرنے کیلئے کچھ بھی کر گزرنا ہے ،پی ٹی آئی اور اس کی قیادت کے مائنس میں ہی اتحادیوں کی بقا ہے ،اتحادی جانتے ہیں کہ اگر پی ٹی آئی قیادت کسی بھی طرح انتخابات میں مد مقابل آگئی تو وہ پھر کہیں دکھائی دیں گے نہ ہی کہیں کے رہیں گے۔
اس خطرے کے پیش نظر ہی سارے پا پڑ بیلے جارہے ہیں ،لیکن عوام اس سارے کھیل تماشے سے نہ صرف تنگ آئے ہوئے ہیں ،بلکہ انتہائی بیزار بھی ہوتے جارہے ہیں ،عوام کو سایفر سے کوئی دلچسپی ہے نہ مائنس پلس کے کھیل سے کوئی سر وکار ہے ،عوام آئے روزبڑھتی مشکلات کا آزالہ چاہتے ہیں ،عوام چاہتے ہیں کہ حکمران اتحاد انہیں نت نئے ایشوز میں الجھائے رکھنے کے بجائے اپنے وعدے پورے کرے

،اتحادیوں نے اقتدار میں آتے ہی عوامی مشکلات کے تدارک کا وعدہ کیا تھا ،لیکن انہوں نے اقتدار میں آتے ہی عوام کا گلا ایسا دبا ہے کہ سانس لینا بھی دشوار ہو گیا ہے اور اب توآئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد مہنگائی کا اتنا بڑاطوفان آیا ہے کہ خدا کی پناہ! پٹرول کی قیمتوں میں چند روپے کمی کرکے بجلی کی قیمت بے تحاشا بڑھادی گئی ہے، گیس کی قیمت میں بے تحاشا اضافے کی خوشخبری دی جارہی ہے جبکہ اشیائے صرف کی قیمتیں مریخ پر جاپہنچی ہیں، آٹے جیسی بنیادی ضرورت ہے، عام آدمی کی دست رست سے باہر ہو گئی ہے

،آٹا ڈیڑھ سو روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے،اس کے ساتھ ہر کھانے پینے کی چیز، سبزیاں، پھل، دالیں اور مسالہ جات سب ہی سونے کے بھائو فروخت ہورہے ہیں اور کوئی پو چھنے والا ، کوئی روک ٹوک کرنے والا دکھائی ہی نہیں دیے رہا ہے ۔اس وقت عوام کا کوئی پر سان حال نہیں ہے ،عوام مہنگائی بے روز گاری کا رونا رو رہے ہیں اور اتحادیوں کو سایفر کے کھیل تماشے سے فرصت نہیں ہے ،یہ وہی پی ڈی ایم ہے ،

جوکہ پی ٹی آئی حکومت میں ہر روز مہنگائی کے خلاف جلوس نکالتی اور ہروزحکومت کا سیاپاکیا کرتی تھی، لیکن اب ہوش ربا مہنگائی کے خلاف عوام کی چیکوں کو خوشی کے نعرے قرار دے کر جشن منارہی ہے،ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا جارہاہے ،لیکن حکمران اپنی عیاشیاں، سہولتیں اور مراعات ترک کرنے کیلئے تیار ہیں نہ ہی آئی ایم ایف ان پر کوئی دبائو ڈالنے پر آمادہ ہے، کیونکہ وہ بھی سمجھتے ہیں کہ اگر حکمران اشرافیہ نے سادگی اختیار کرلی تو یہ بھیک مانگنے کے بجائے بھیک دینے والے بن جائیں گے، اس لیے غلام ابن غلام رکھتے ہوئے ،بھیک منگا رکھنا ہی پسند کیا جارہا ہے۔
اس وقت ایک طرف بد حال عوام اور دوسری جانب ملک کے بگڑتے حالات ہیں ،اس صورت حال نے ساری قوتوں کو ہی ایک منفرد چیلنج سے دوچار کر دیا ہے، آج پاکستان کی سیاست میں مخالف کو غداری سے جوڑنا ،اسلامی ٹچ کے ذریں اصولوں کا تڑکا لگانا، ایمانداری کے پلاٹ پر ناجائز قبضے جمانا، اس ہنر اور گْر کو سیکھ کر اہل سیاست بڑی کامیابی سے اپنے مخالفین پر نہ صرف آزما رہے ہیں، بلکہ سیاسی میدان میں لگے تماشے

، دیہاڑی لگانے کے لئے وافر مواقع بھی فراہم کر رہے ہیں، یہ سارے معاملات و واقعات کہانی کے اگلے باب کا پتہ دے رہے ہیںکہ اپنے مخالف کو کیسے کسی بھی معاملے میں پھنسا کر نکالا جاسکتا ہے، پا کستانی عوام ایک عرصے سے نان اسٹاپ چلتی فلم دیکھ رہے ہیں ، اس کے مناظرانہیں کبھی ہنسنے،کبھی رونے اور کبھی انتہائی سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیںکہ یہ سب کچھ کب تک ایسے ہی چلے گا؟ آخر کبھی توان سب کا یوم حساب بھی آئے گا، کیا خبر آنے والے انتخابات ہی یوم حساب ثابت ہوجائیں ، لیکن اس انتخاب میںعوام کو اپنا کردار ضرور ادا کر نا ہو گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں