21

کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے، انسانی حقوق کمیشن کا مطالبہ

کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے، انسانی حقوق کمیشن کا مطالبہ

کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے، انسانی حقوق کمیشن کا مطالبہ

رضوانہ کو مبینہ طور پر اس کے آجروں نے ایک طویل عرصے تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا: ایچ آر سی پی/ فائل فوٹو
رضوانہ کو مبینہ طور پر اس کے آجروں نے ایک طویل عرصے تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا: ایچ آر سی پی/ فائل فوٹو

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے 13 سالہ رضوانہ بی بی کے کیس کے بعد مطالبہ کیا ہے کہ کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت کو جرم قرار دیا جائے۔

اپنے بیان میں ایچ آر سی پی کی چیئرپرسن حنا جیلانی نے کہا کہ رضوانہ کو مبینہ طور پر اس کے آجروں نے ایک طویل عرصے تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا تھا، ملک میں اس طرح کے واقعات خطرناک حد تک باقاعدگی کے ساتھ رونما ہوتے ہیں اور سول سوسائٹی کو اس پر فوری کارروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھاکہ رضوانہ بی بی نے نہ صرف تشدد برداشت کیا جو قابل مذمت ہے بلکہ اسے 16 سال سے کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت پر پابندی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم عمری میں ملازمت دی گئی۔ 

حنا جیلانی نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے آجر ایک سول جج اور ان کی اہلیہ تھے، حقیقت یہ ہے کہ جب رضوانہ پر تشدد کی مضبوط ایف آئی آر درج نہیں کی گئی اور یہ کہ ملزمہ کو اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حفاظتی ضمانت دے دی گئی، یہ امر ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتا ہے جو غیر متغیر طور پر کمزور ترین طبقے کا استحصال کرتا ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق افسوس کی بات ہے معاشرے نے نابالغوں کی ملازمت ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ بدسلوکی کو بھی معمول بنا لیا ہے، خواہ وہ گھروں، اسکولوں میں ہو یا کام کی جگہوں پر ہو، اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بچوں کو آسان ہدف اور شکار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

حنا جیلانی  کا کہنا تھاکہ بچوں کے حقوق کے کنونشن جس پر پاکستان دستخط کنندہ ہے، اس کا بنیادی مقصد بچوں کو سرکاری اور نجی شعبوں میں ہر قسم کے تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے، ریاست کو بچوں کے خلاف ہر قسم کی غفلت، بدسلوکی، استحصال اور تشدد کی روک تھام اور ایسے واقعات کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رضوانہ اور اس جیسے دیگر بچے جو ماضی میں تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں، دوبارہ ایسے واقعات کا شکار نہ ہوں تو ریاست کو بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام اور ان کے تحفظ کے لیے ایک قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا اور ایک ایسے عدالتی نظام کا اطلاق کرنا ہوگا جو بچوں کے بہترین مفادات کوملحوظِ خاطر رکھے۔

واضح رہے کہ 24 جولائی کو تشدد کی شکار بچی رضوانہ کا معاملہ سامنے آيا تھا، بچی کی ماں نے جج کی اہلیہ پر تشدد کا الزام لگایا تھا، جب بچی کو اسپتال پہنچایا گیا تو اس کے سر کے زخم میں کيڑے پڑ چکے تھے اور دونوں بازو ٹوٹے ہوئے تھے اور وہ خوف زدہ تھی۔

https://www.youtube.com/watch?v=KqdvRrHzdT8&t=341s

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں