اتنی بے اعتباری کیوں ہے! 48

اتنی بے اعتباری کیوں ہے!

اتنی بے اعتباری کیوں ہے!

حکمران اتحاد کی طرف سے جانے کا اعلان تو کر دیا گیاہے، لیکن ابھی تک نگران حکومت کی تشکیل اور انتخابات کی تاریخ کے بارے میں بے یقینی کی صورت حال بدستور قائم ہے،یہ کہا ضرورجارہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے پانچ نام شارٹ لسٹ کر لیے گے، لیکن یہ نام ابھی تک سامنے ہی نہیں آرہے ہیں،

ایک طرف حکمران اتحاد کے سرکردہ لیڈروں کے درمیان نگراں سیٹ اپ کیلئے مشاورت جاری ہے تو دوسری جانب دعوی کیا جا رہا ہے کہ نگران حکومت کی مدت میں توسیع بھی ہو سکتی ہے ،اگر ایسا ہوتا ہے تو انتخابات ایک سال یا اس سے بھی زیادہ عرصے تک مؤخر ہو سکتے ہیں،یہ انتخابات میں تاخیر ملک کو ایک غیر یقینی صورت حال کی طرف دھکیل دے گی۔اس ملک میں قومی مفاد کی تو کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے

،ہر ایک کو اپنے اپنے مفادات کی پڑی ہے ، حکمران اتحاد بار ہا جانے کی یقین دھانیاں تو کرارہے ہیں ،لیکن بروقت انتخانات کے بارے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آرہا ہے ، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن تو باقاعدہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ حالات انتخابات کے لئے سازگار ہوئے تو انتخابات کی تاریخ بڑھانے میں کوئی حرج نہیں ہے ،یہ سازگار حالات سے ان کی کیا مراد ہے، اس بارے میں انہوں نے کبھی وضاحت نہیں کی ہے

،لیکن یہ بات سب ہی جانتے ہیں کہ اس سے اُن کی مراد ہے کہ تحریک انصاف کا جب تک میدان سے صفایا نہیں کر دیا جاتا، اس وقت تک انتخابات نہیں ہونے چاہئیں، جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے تو وہ دوہی باتیں چاہتی ہے، پہلی بات نوازشریف واپس آئیں اور چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کے اہل بن جائیں،دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کو نااہل قرار دے کر انتخابات سے باہر کیا جائے ،اس کے لیے ہی پورا زور لگایا جارہا ہے۔
حکمران اتحاد کی تر جیحات میں انتخابات کا انعقاد نہیں ،پی ٹی آئی قیادت کو راستے سے ہٹا نا ہے ،اس کیلئے تمام جائز و نا جائز حر بے آزمائے جارہے ہیں ،پی ٹی آئی کے ساتھ جو کچھ اب تک ہوا ہے، وہ موجودہ حکومتی سیٹ اپ کے لئے کافی نہیںہے ،حالانکہ پارٹی کی تمام قابلِ ذکر قیادت جماعت چھوڑ چکی ہے، عمران خان پر ساری پابندیاں ہیں،پی ٹی آئی کوئی سیاسی سر گر میاں بھی نہیں کر سکتی ہے،اگر دیکھا جائے

تو تحریک انصاف سیاسی منظر نامے سے غائب ہو چکی ہے، مگر اس کے باوجود اتحادیوں پر ایک انجانا سا خوف مسلسل طاری ہے کہ الیکشن کا اعلان ہو تے ہی تحریک انصاف پھر باہر نکل آئے گی اور اس وقت اسے روکنا مشکل ہو جائے گا، اس خوف کی وجہ سے ہی انتخابات کا دوٹوک اعلان کیا جا رہا ہے نہ ہی آئے روز بڑھتی بے یقینی کا خاتمہ کیا جا رہا ہے،اُلٹا ایوان پارلیمان سے دھڑا دھڑ بل منظور کرائے جارہے ہیں ،

اتحادی حکومت رخصت ہونے سے قبل تیزی سے جو قانون سازی کرا رہی ہے،اس کے نہ جانے کون سے مقاصد ہیں کہ جن کے حصول کے لیے پارلیمان کو ربر اسٹمپ بنا کر ان کے مسودے کا مطالعہ اور بحث کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔اس حکومت سے بریت کا اظہار سب ہی کرتے ہیں، لیکن پاکستان پر جس طرح کی استبدادی طرز حکمرانی کو مستحکم کیا جارہا ہے اور اداروں کے اہلکاروں کے استبدادی اقدامات کو جواز فراہم کیا جارہا ہے، اس کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہورہی ہے ، ہرطرف ایک خاموشی چھائی ہے

، لیکن اس خاموشی میںبھی کچھ نحیف آوازیں بلند ضرورہورہی ہیں ،ایوان پار لیمان میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مسودے پھاڑ نے کی جرأت بھی کی گئی ہے، تاہم یہ چند افراد کی نحیف آواز یں ایوان پارلیمان میںبلوں کی منظوری زیادہ دیر تک روک پائیں گی نہ ہی ایوان کی ساکھ بحال کر پائیں گی، لیکن اس مزاحمتی عمل سے جمہوریت کے تقدس کے علم بردار نام نہاد سیاسی قیادتیں بے نقاب ضرور ہوگئی ہیں۔
اتحادی قیادت پوری طرح عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکے ہیں،حکمران اتحاد جاتے جاتے اپنی رہی سہی ساکھ بھی خراب کر نے پر تلے نظر آتے ہیں ،اسحکومت کے جانے کے بعد کیا نقشہ سامنے آتا ہے، اس بارے میں کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے، اس خدشے کا بھی اظہار کیا جارہاہے کہ نگران ھکومت کی مدت بڑھائی جا سکتی ہے

، اس کے لئے پارلیمنٹ میں کوئی قرارداد لا سکتی ہے یاسپریم کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے،اگر ایسا ہوا تو کوئی نیک شگون نہیں ہوگا،اتحادی اپنے حصول مفاد میں جو کچھ بھی کر گزرہے ہیں ،اس کا انہیں انتہائی برا خمیازہ بھی بھگتنا پڑے گا ،اس لیے انتخابات وقتِ کرانے پر ہی پورا زور لگا نا چاہیے،صرف اس خوف سے کہ مخالف جماعت نہ جیت جائے، الیکشن کا التوا عوام کی توہین ہوگی۔
عوام ایک عر صے سے حق رائے دہی چاہتے ہیںاور مطالبہ بھی کررہے ہیں،یہ عوام کا حق ہے کہ وہ فیصلہ دیں

کہ کسے اپنی نمائندگی کے لئے منتخب کرنا ہے۔،انتخابات کا دوسرا پہلو ان کی شفافیت ہے،اگر انتخابات میں غیر جانبداری اور شفافیت برقرار نہیں رہتی اور صاف لگتا ہے کہ انہیں سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے من پسند نتائج کی طرف موڑا گیا ہے تو یہ بات ملک میں جاری سیاسی بے یقینی اور انتشار کو مزید بڑھا دے گی ،اس کے موجودہ حالات میں ہم متحمل نہیں ہو سکتے ہیں، ملک میں فیصلے بند کمروں کے بجائے

عوام کی رائے سے ہی ہونے چاہئے، بالکل اْسی طرح کہ جیسے باقی جمہوری ملکوں میں ہوتے ہیں، اس ملک میں مائنس پلس کے فیصلے بہت ہو چکے ہیں، ہمیںان سے ما سوائے انتشار اور عدم استحکام کے کچھ حاصل ہوا نہ ہی آئندہ کچھ ملنے والا ہے، اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے، ساری بے اعتباری ختم کرنے کی ضرورت ہے ،بصورت دیگر سب کچھ ہی ہاتھ سے نکل جائے گا اور ماسوائے پچھتائوئے کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں